تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے یہ مقصد نہیں کہ وہ حیض و نفاس کے متعلق کوئی لغوی تشریح کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ کتاب لغت سے متعلق نہیں، بلکہ اس کا موضو ع احادیث مبارکہ سے مسائل و احکام کا استخراج واستنباط ہے۔ غالباً امام بخاری یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نفاس کا خون دراصل حیض ہی کا خون ہے جو قرار حمل کے سبب رحم کا منہ بند ہونے کی وجہ سے رک گیا تھا۔ولادت کے بعد رحم کا منہ کھلتے ہی وہ نکل پڑا۔ اس بنا پر حیض ونفاس کے مسائل تقریباً یکساں ہیں۔ اس مقصد کے تعین کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عنوان سے حدیث کی مطابقت کس حد تک ہے؟شارحین نے اس کے متعلق اپنے اپنے ذوق کے مطابق اظہار خیال کیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ حیض کا اطلاق نفاس پر اور نفاس کا اطلاق حیض پر اہل عرب کے ہاں عام ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ کے نزدیک جو احکام حیض کے ہوں گے، وہی حیض کے ہیں۔ شارع علیہ السلام نے الگ سے نفاس کے احکام نہیں بتائے 2۔ ابن المنیرفرماتے ہیں کہ یہ حدیث بظاہر عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ ھدیث میں عنوان کے برعکس حیض کو نفاس سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن امام بخاری اس امر پر تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ منافات نماز وغیرہ کے مسائل میں حیض و نفاس کا حکم ایک ہی ہے۔ اس لیے حدیث سے دونوں کا یکساں حکم استنباط کر کے عنوان قائم کردیا، یہ اس لیے کیا کہ نفاس سے متعلقہ احادیث ان کی شرط کے مطابق نہ تھیں۔ (المتواري:79) 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں فن بلاغت کی مشہور صنعت قلب کو استعمال فرمایا ہے، اصل اس طرح ہے کہ جس نے حیض کا نام نفاس رکھا یا اس میں تقدیم وتاخیر ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ (مَن سَمّٰى) سے مراد یہ ہے کہ جس نے لفظ نفاس کا اطلاق حیض پر کیا ۔ ان تمام صورتوں میں حدیث کی عنوان سے مطابق بے تکلف ہو جائے گی۔ (فتح الباري:522/1) 4۔ محدث ابن رشید نے فرمایا ہے کہ رحم سے نکلنے والے خون کو دراصل نفاس ہی کہتے ہیں، کیونکہ نفاس بمعنی خون لغت میں معروف ہے اور اس لفظ سے اس کی تعبیر ہے اور لفظ حیض سے اس کی تعبیر کرنا مخصوص معنی کے ساتھ تعبیر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عام معنی کے اعتبار سے اس پر نفاس کا لفظ استعمال فرمایا۔ جبکہ حضرت اُم سلمہ ؓ کی تعبیر خاص معنی کے اعتبار سے ہے۔ (فتح الباري:522/1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ طہارت کے متعلق حیض و نفاس کے مسائل یکساں ہیں۔ فقہاء نے جو وجوہ فرق بیان کیے ہیں وہ دوسرے اعتبارات سے ہیں جو اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہیں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں خواتین حیض کے دوران میں استعمال کے کپڑے الگ رکھتی تھیں اور عام حالات میں استعمال کے کپڑے الگ ہوتے تھے۔ اس سے ان کے سلامت ذوق اور نفاست طبع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کپڑوں کی عام قلت کے حالات میں ایسا اہتمام کرنا معمولی بات نہ تھی، جبکہ ہمارے ہاں خواتین میں ایسا اہتمام نہیں ہوتا ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہماری خواتین خود کو اس حالت میں نمایاں نہیں کرنا چاہتیں۔ واللہ أعلم۔