تشریح:
1۔ حضرت عمر ؓ بہت صائب الرائے تھے جب انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ جب اونٹ ذبح کر دیے جائیں گے تو مجاہدین کس پر سواری کریں گے اور سارا سفر پیدل طے کرنا بے حد مشکل ہے۔ چونکہ یہ مشورہ صحیح تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرمایا :اور باقی ماندہ راشن جمع کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے برکت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ تمام مجاہدین کو کافی ہو گیا۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں اپنے صحابہ کرام ؓ کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ 3۔ امام بخاری ؓ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ دوران سفر میں زاداہ ہمراہ رکھنا چاہیے۔ ایسا کرنا تو کل کے خلاف نہیں۔ واللہ المستعان۔