تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف اتنا کہا تھا کہ اے سیاہ فام عورت کے بیٹے! حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عمررسیدگی کے باوجود اس کی سنگینی کا علم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطور تعجب فرمایا: ’’اے ابو ذر! عمر کے اس دور میں بھی تیرے اندر اس قسم کی جاہلانہ عادات باقی ہیں؟ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6050)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خصلت شرعاً کس قدر مذموم ہے۔ (فتح الباري:1؍ 118) ہمارےمعاشرے میں اس قسم کی بات گالی تو شمار ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف مذاق کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے جبکہ شریعت نے اسے دور جاہلیت کی یادگارسے تعبیر فرمایا ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ’’معاصی امور جاہلیت سے ہیں۔‘‘ کو ثابت کرنا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ ابو ذر! تیرے اندر ابھی جاہلیت کی بو باقی ہے لیکن اسے ایمان سے خارج نہیں بتلایا اور نہ اسے تجدید ایمان ہی کے لیے کہا۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں مساوات کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ماتحت لوگوں کے ساتھ مساوات کی تلقین کی گئی ہے، جس سے ماتحتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔