تشریح:
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جہاد کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے والدین کی خدمت کو جہاد پر مقدم کیا ہے۔ یہ اس لیے کہ ماں باپ کی خدمت فرض عین ہے جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے البتہ دشمن سے لڑنے کے لیے حاکم وقت جہاد کا عام حکم دے دے تو اس صورت میں جہاد فرض عین ہو گا ایسے حالات میں جہاد میں شرکت کے لیے والدین کی اجازت ضروری نہیں۔ ہمارے ہاں اس مسئلے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے کہ جہاد کے لیے والدین کی اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں؟ بعض عسکری تنظیمیں جہاد کے لیے والدین کی اجازت کو لائق توجہ ہی خیال نہیں کرتیں ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے۔کہ جہاد اگر فرض عین ہو تو والدین کی اجازت لینا ضروری نہیں اور جہاد دو صورتوں میں فرض عین ہوتا ہے۔ ©دشمن جب اسلامی ملک پر حملہ کردے۔ ©حاکم وقت جہاد کا عام حکم دے دے۔ مذکورہ دو صورتوں میں والدین کی اجازت ضروری نہیں ان کے علاوہ جہاد کی جو صورت ہو گی اس میں والدین سے اجازت لینا ہو گی ،چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ ﷺنے اس سے دریافت فرمایا:’’یمن میں تمھارا کوئی رشتے دار موجود ہے؟‘‘ اس نے کہا: میرے والدین موجود ہیں آپ نے پوچھا:’’تمھارے والدین نے تمھیں اجازت دی تھی؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا:’’پھر تم واپس چلے جاؤ اور اپنے والدین سے اجازت طلب کرو اگر وہ تمھیں اجازت دیں تو جہاد میں شرکت کرو بصورت دیگر ان سے سلوک کرتے رہو۔‘‘ (مسند أحمد:57/3،76) اگرچہ اس حدیث سند میں کچھ کلام ہے تاہم دیگر صحیح احادیث سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ بہر حال جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں والدین سے اجازت لینا ضروری ہے اجازت نہ لینے کے متعلق ایک حدیث پیش کی جاتی ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور عرض کرنے لگا۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! سب سے افضل عمل کون ساہے؟ آپ نے فرمایا:’’نماز اس نے عرض کی:اس کے بعد کس عمل کی فضیلت ہے؟ آپ نے فرمایا:’’جہاد کی۔‘‘ اس نے کہا میرے تو والدین زندہ ہیں۔آپ نے فرمایا:’’میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ اس نے کہا:اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے!میں اپنے والدین کو چھوڑ کر ضرور جہاد میں شرکت کروں گا۔ آپ نے فرمایا:’’پھر تم بہتر جانتے ہو۔‘‘ (مسند أحمد172/2) لیکن اس روایت کی سند میں ابن لہیعہ اور حیی بن عبد اللہ المعافری ضعیف راوی ہیں۔ محدثین نے ان کے متعلق کلام کیا ہے اگر اس کی صحت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو حافظ ابن حجر ؒنے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے اس روایت کو جہاد کی اس صورت پر محمول کیا جائے گا جو فرض عین ہوتی ہے۔ (فتح الباري:170/6) الغرض والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا انتہائی ضروری ہے اور جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں ان سے اجازت لینا بھی لازم ہے اس کے بغیر جہاد میں شرکت کرنا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔