تشریح:
1۔حضرت علی ؓکے دور حکومت میں کچھ لوگ حکومتی وظائف لیتے لیکن درپردہ وہ بتوں کے پجاری تھے۔انھیں گرفتار کرکے حضرت علی ؓکے پاس لایا گیا تو آپ نے انھیں قیدکردیا، پھر لوگوں سے مشورہ میں طے پایا کہ انھیں قتل کردیا جائے لیکن حضرت علی ؓکا موقف تھا کہ ان کے ساتھ وہی سلوک کیاجائے جو انھوں نے ہمارے باپ حضرت ابراہیم ؑکے ساتھ کیا،چنانچہ انھوں نے آگ کا آلاؤ تیار کیا، پھر انھیں جلا کر بھسم کرڈالا۔ (فتح الباري:183/6) 2۔دورحاضر میں آلات حرب،مثلاً:توپ،راکٹ اور گولہ بارود وغیرہ تمام آگ ہی کی قسم سے ہیں۔چونکہ کفار نے اس قسم کا اسلحہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے ،لہذا جواباً ایسا اسلحہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اب توپٹرول بم ایجاد ہوچکے ہیں وہ جہاں گرتے ہیں وہاں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور ہرچیز کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ہمارےرجحان کے مطابق ان جدید ہتھیاروں کا استمال امردیگر است، البتہ مطلق طور پر کسی کوآگ میں جلانا شرعی اور اخلاقی طور پسند نہیں کیا جاسکتا۔ واللہ أعلم۔