قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ قَتْلِ المُشْرِكِ النَّائِمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3022. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى أَبِي رَافِعٍ لِيَقْتُلُوهُ»، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَدَخَلَ حِصْنَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فِي مَرْبِطِ دَوَابَّ لَهُمْ، قَالَ: وَأَغْلَقُوا بَابَ الحِصْنِ، ثُمَّ إِنَّهُمْ فَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ، فَخَرَجُوا يَطْلُبُونَهُ، فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ أُرِيهِمْ أَنَّنِي أَطْلُبُهُ مَعَهُمْ، فَوَجَدُوا الحِمَارَ، فَدَخَلُوا وَدَخَلْتُ وَأَغْلَقُوا بَابَ الحِصْنِ لَيْلًا، فَوَضَعُوا المَفَاتِيحَ فِي كَوَّةٍ حَيْثُ أَرَاهَا، فَلَمَّا نَامُوا أَخَذْتُ المَفَاتِيحَ، فَفَتَحْتُ بَابَ الحِصْنِ، ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ، فَأَجَابَنِي، فَتَعَمَّدْتُ الصَّوْتَ فَضَرَبْتُهُ، فَصَاحَ، فَخَرَجْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ كَأَنِّي مُغِيثٌ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي، فَقَالَ: مَا لَكَ لِأُمِّكَ الوَيْلُ، قُلْتُ: مَا شَأْنُكَ؟، قَالَ: لاَ أَدْرِي مَنْ دَخَلَ عَلَيَّ، فَضَرَبَنِي، قَالَ: فَوَضَعْتُ سَيْفِي فِي بَطْنِهِ، ثُمَّ تَحَامَلْتُ عَلَيْهِ حَتَّى قَرَعَ العَظْمَ، ثُمَّ خَرَجْتُ وَأَنَا دَهِشٌ، فَأَتَيْتُ سُلَّمًا لَهُمْ لِأَنْزِلَ مِنْهُ، فَوَقَعْتُ فَوُثِئَتْ رِجْلِي، فَخَرَجْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِبَارِحٍ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ، فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى سَمِعْتُ نَعَايَا أَبِي رَافِعٍ تَاجِرِ أَهْلِ الحِجَازِ، قَالَ: فَقُمْتُ وَمَا بِي قَلَبَةٌ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْنَاهُ

مترجم:

3022.

حضرت براء بن عازب  ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے چند آدمیوں کو ابو رافع کی طرف بھیجا تاکہ وہ اسے قتل کردیں۔ ان میں سے ایک صاحب آگے چل کر ان کے قلعے میں داخل ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ان کے گھوڑوں کے اصطبل میں چھپ گیا۔ پھر انھوں نے قلعے کا دروازہ بند کردیا۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گدھا گم پایا تو اس کی تلاش میں باہر نکلے۔ میں بھی ان لوگوں کے ساتھ باہرنکلا تاکہ ان پر یہ ظاہر کروں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں شامل ہوں۔ بالآخر انھوں نے گدھا تلاش کرلیا اور قلعے میں داخل ہوگئے۔ میں بھی ان کے ساتھ اندر آگیا۔ پھر انہوں نےدروازہ بند کردیا اور ایک طاق میں اس کی چابیاں رکھ دیں جسے میں نے دیکھ لیا۔ جب وہ سوگئے تو میں نے چابیوں کا گھچا اٹھایا اوردروازہ کھول دیا۔ پھر میں ابو رافع کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے آواز دی: ابورافع! اس نے مجھے جواب دیا تو میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کردیا۔ وہ چلایا تو میں باہر آگیا۔ میں لوٹ کر پھر اس کے کمرے میں داخل ہوا گویا میں اس کا فریاد رس ہوں۔ میں نے کہا: ابورافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی۔ اس نے کہا تو کیاکررہا ہے تیری ماں کی ہلاکت ہو، میں نے کہا تجھے کیا بات پیش آئی؟ اس نے کہا: نامعلوم کوئی شخص میرے کمرے میں گھس آیا اور اس نے مجھ پر حملہ کردیا ہے۔ انھوں نےکہا: تب میں نے تلوار اس کے پیٹ میں رکھ دی، پھر اس پر زور دیا حتیٰ کہ وہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی۔ جب میں اس کے کمرے سے نکلا توبہت دہشت زدہ تھا۔ میں ان کی سیڑھی کے پاس آیا تاکہ اسکے ذریعے سے نیچے اتروں مگر میں اس پر سے گر گیا اور میرے پاؤں کو سخت چوٹ آئی پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہیں رہوں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں، چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابو رافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان با آواز بلند سنا۔ پھر میں وہاں سے اٹھا تو مجھے اس وقت کچھ بھی درس محسوس نہیں ہوا حتیٰ کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔