قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَنْ رَأَى العَدُوَّ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: يَا صَبَاحَاهْ، حَتَّى يُسْمِعَ النَّاسَ

3041. حَدَّثَنَا المَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ: خَرَجْتُ مِنَ المَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الغَابَةِ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِثَنِيَّةِ الغَابَةِ، لَقِيَنِي غُلاَمٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قُلْتُ: وَيْحَكَ مَا بِكَ؟ قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا؟ قَالَ: غَطَفَانُ، وَفَزَارَةُ فَصَرَخْتُ ثَلاَثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا: يَا صَبَاحَاهْ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ، وَقَدْ أَخَذُوهَا، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ ... وَاليَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا، فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ القَوْمَ عِطَاشٌ، وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا سِقْيَهُمْ، فَابْعَثْ فِي إِثْرِهِمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الأَكْوَعِ: مَلَكْتَ، فَأَسْجِحْ إِنَّ القَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ

مترجم:

ترجمۃ الباب: تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں ۔قال ابن المنيرموضع هذه الترجمةان هذه الدعوةليست من دعوى الجاهلية المنهى عنها لانهااستغاثه على الكفار(فتح)یعنی طرح پکارنا منع نہیں ہے۔

3041.

حضرت سلمہ بن اکوع  ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں مدینہ طیبہ سے غابہ کی طرف جارہا تھا۔ جب میں غابہ کی پہاڑی پر پہنچا تو مجھے حضرت عبدالرحمان بن عوف  ؓ کا ایک غلام ملا۔ میں نےکہا: تیری خرابی ہوتو یہاں کیسے آیا؟اس نے کہا: نبی کریم ﷺ کی دودھیل اونٹنیاں چھین لی گئی ہیں۔ میں نے کہا: انھیں کس نے چھینا ہے؟ اس نے کہا: غطفان اور فزارہ کےلوگوں نے۔ اس کے بعد میں تین باریا صباحاہ!یا صباحاہ کہتا ہوا خوب چلایا حتیٰ کہ مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں رہنے والوں نے میری آواز کو سنا۔ پھر میں دوڑتا ہوا ڈاکوؤں سے جا ملا۔ جبکہ وہ اونٹنیاں لیے جارہے تھے۔ اس کے بعد میں نے انھیں تیر مارنے شروع کردیے اور میں یہ کہہ رہا تھا: ’’میں ہوں سلمہ بن اکوع جان لو۔۔۔ آج کمینے سب مریں گے مان لو‘‘ چنانچہ میں نے دو اونٹنیاں ان سے چھین لیں قبل اس کے کہ وہ ان کا دودھ پیتے۔ میں انھیں ہانکتا ہوا لارہا تھا کہ نبی کریم ﷺ مجھے ملے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !ڈاکو پیاسے ہیں۔ میں نے انھیں پانی بھی نہیں پینے دیا، لہذا آپ جلد ہی ان کے تعاقب میں کسی کو روانہ کردیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن اکوع!تو ان پر غالب ہوچکا۔ اب انھیں جانے دو۔ وہ اپنی قوم میں پہنچ چکے ہیں اور وہاں ان کی مہمانی ہورہی ہے۔‘‘