قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابٌ: كَيْفَ يُعْرَضُ الإِسْلاَمُ عَلَى الصَّبِيِّ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3055. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الغِلْمَانِ، عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ يَوْمَئِذٍ ابْنُ صَيَّادٍ يَحْتَلِمُ، فَلَمْ يَشْعُرْ بِشَيْءٍ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟»، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ»، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَاذَا تَرَى؟» قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُلِطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ؟» قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا»، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ»، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِيهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ يَكُنْهُ، فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ، فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ»،

مترجم:

3055.

حضرت ابن عمر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی ﷺ کے ساتھ نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت، جس میں حضرت عمر  ؓ بھی شامل تھے، ابن صیاد کی طرف گئی۔ آکر بنو مغالہ کے ٹیلوں کے پاس اسے بچوں کے ہمراہ کھیلتے ہوئے پایا۔ اس وقت وہ قریب البلوغ تھا۔ اسے آپ ﷺ کی آمد کا کچھ علم نہ ہوا حتی کہ نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک اس کی پشت پر مارا پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ کیاتو اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟‘‘ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھ لوگوں کے رسول ہیں؟ پھر ابن صیاد نے نبی ﷺ سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو اللہ اور اس کے سچے رسولوں پر ایمان لایا ہوں۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے کیا نظر آتا ہے؟‘‘ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تجھ پر حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے اس سے کہا: ’’میں نے تیرے لیے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتاوہ کیا ہے؟)‘‘ ابن صیاد نے کہا: وہ "دخ" ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ذلیل اور کم بخت! تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘‘ حضرت عمر  ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ وہی (دجال)ہے تو تم اس پر ہرگز مسلط نہیں ہو سکتے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔‘‘