قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَنْ تَكَلَّمَ بِالفَارِسِيَّةِ وَالرَّطَانَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ} [الروم: 22]، {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ} [إبراهيم: 4]

3072. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ الحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ، أَخَذَ تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ، فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالفَارِسِيَّةِ: «كِخْ كِخْ، أَمَا تَعْرِفُ أَنَّا لاَ نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” ( اللہ کی نشانیوں میں ) تمہاری زبان اوررنگ کا اختلاف بھی ہے‘‘ ۔ اور ( اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ) ” ہم نے کوئی رسو ل نہیں بھیجا ‘ لیکن یہ کہ وہ اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا تھا۔‘‘امام بخاری کا اس باب کے لانے سے یہ مطلب ہے کہ ایک زبان کا سیکھنا اور بولنا درست ہے کیونکہ سب زبانیں اللہ کی طرف سے ہیں۔انگریزی ہندی کا بھی یہی حکم ہے۔اور دوسری آیت میں ہے (وان من امۃ الا خلا فیہا نذیر)تو معلوم ہوا کہ ہر ایک زبان پغمبر کی زبان ہے‘کیونکہ اس قوم میں جو پغمبر آیا ہوگا وہ ان ہی کی زبان بولتا ہوگا ان آیتوں سے یہ ثابت ہوا کہ انگریزی‘ہندی‘مرہٹی‘روسی‘جرمنی زبانیں سیکھنا اور بولنا درست ہے زبانوں کا تعصب انسانی بدبختی کی دلیل ہے‘ہر زبان سے محبت کرنا عین منشائے الٰہی ہے۔لفظ رطانہ راء کی زیر و زبر ے ساتھ غیر عربی میں بولنا۔آیت(وما ارسلنا الخ)میں مصنف کا اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت اقوام عالم کے لئے ہے اس سلئے بھی ضروری ہوا کہ آپ دنیا کی سا ری زبانوں کی حمایت کریں ان کو خود بذریعہ ترجمان سمجھیں۔ﷺ

3072.

حضرت ابو ہریرہ  ؓسے روایت ہے کہ حضرت حسن بن علی  ؓ نے صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھائی اور اسے اپنے منہ میں ڈال لیا تو نبی ﷺ نے ان سے فارسی زبان میں فرمایا: ’’كخ كخ یعنی تھو، تھو کیا تجھے پتہ نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے؟‘‘