تشریح:
1۔مذکورہ احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے غیر عربی الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ پہلی حدیث میں لفظ سور ہے۔ فارسی زبان میں یہ لفظ ضیافت،یعنی مہمانی ے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں لفظ سنة ہے جو حبشی زبان میں عمدہ چیز کو کہا جاتا ہے۔تیسری حدیث میں كخ كخ فارسی کا لفظ ہے جو بچوں كو ڈانٹنے كے ليے استعمال ہوتا ہے۔ جب وہ کوئی نامناسب کام کریں بہرحال عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کا استعمال جائز ہے،نیز ان احادیث سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جوعربی کے علاوہ دیگرزبانوں کے سیکھنے پر اظہار نفرت کرتے ہیں،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود بعض اوقات فارسی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ 2۔اس سلسلے میں امام بخاری ؒنے کچھ احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے،مثلاً:جو انسان فارسی زبان میں گفتگو کرے گا اس کی خباثت میں اضافہ اور مروت میں کمی واقع ہوگی۔ (المستدرك الحاکم 88/4) جو انسان عربی زبان اچھی طرح بول سکتا ہے اسے چاہیے کہ وہ فارسی زبان میں گفتگو نہ کرے کیونکہ یہ زبان نفاق پیدا کرتی ہے۔(المستدرك الحاکم 87/4) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان احادیث کی اسناد انتہائی کمزور ہیں۔ (فتح الباري:221/6) 3۔انسانی معاشرے میں لسانی فساد انتہائی خطرناک ہے۔ اسلام نے سختی سے اس کا سدباب کیا ہے،اس لیے کسی بھی زبان کے متعلق تعصب رکھنا انتہائی بری بات ہے۔واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم وابن الجارود، وأخرجه الشيخان بنحوه مرفوعاً؛ وزادا: إلا أنه خُفِّفَ عن المرأة الحائض) . إسناده: حدثنا نصر بن علي: ثنا سفيان عن سليمان الأحول عن طاوس عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. وسفيان: هو ابن عيينة. والحديث أخرجه الشافعي (2/73) ، وأحمد (1/222) ، والحميدي (502)قالوا: ثنا سفيان... به. وأخرجه مسلم (4/93) ، والدارمي (2/72) ، وابن ماجه (2/251) ، وابن الجارود (495) ، والبيهقي (5/161) من طرق عن سفيان... به. ولسفيان فيه إسناد آخر، يرويه عن ابن طاوس عن أبيه عن ابن عباس قال: أُمِرَ الناس أن يكون آخرُ عهدهمْ بالبيتِ إلا أنه خُفِّفَ عن المرأة الحائض. أخرجه الشيخان وغيرهما، وهو مخرج في " الإرواء " (1086) ، وزاد البخاري في رواية عن طاوس قال: وسمعت ابن عمر يقول: إنها لا تنفر. ثم سمعته يقول بَعْدُ: إن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخّصَ لهنَّ