تشریح:
1۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ کا مطلب یہ تھا کہ کل پرسوں تک دشمن سے جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہے، اگر ہم تلواروں سے جانور ذبح کرنا شروع کردیں تو وہ کند ہوجائیں گی اور دشمن کے خلاف استعمال نہیں ہو سکیں گی اور چھریاں ہمارے پاس ہیں نہیں،اس لیے سر کنڈے سے ذبح کی اجازت دی جائے۔ چونکہ ذبح سے مقصد نجس خون بہانا ہے اور وہ سرکنڈے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شے بھی خون بہادے اس سے ذبح کرسکتے ہو،البتہ دانت ہڈی ہےاورہڈی جنوں کی خوراک ہے جو ذبح کرنے سے نجس ہوجائےگی اور ناخن سے حبشی لوگ ذبح کرتے ہیں اور حبشی لوگ اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ 2۔حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے ہنڈیاں الٹا دینے کا حکم دیا کہ کیونکہ جن جانوروں کا گوشت پکایا جا رہا تھا انھیں رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بغیر تقسیم سے پہلے ہی ذبح کردیا گیاتھا،اس لیے آپ نے بطور یہ سزا حکم دیا۔ 3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مال ضائع کردیا جبکہ دوسری احادیث میں آپ نے مال ضائع کرنے سے روکا ہے؟ ان میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ عمومی حالات میں یہی حکم ہے کہ مال ضائع نہ کیا جائے تاہم کسی مصلحت یا تادیبی کاروائی کے طور پر ایسا کرنا جائز ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے کیا ۔اس کی تائید سنن نسائی میں مذکور حضرت حذیفہ ؓ کے واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ کسی گاؤں کا نمبردار چاندی کے برتن میں ان کےلیے پانی لایا تو انھوں نے وہ برتن پانی سمیت اسے دے مارا۔ (سنن نسائي، الزینة، حدیث:5303)