تشریح:
1۔ مدنی دورکے آغاز میں شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے مسلمان شراب نوشی کرتے تھے۔ غزوہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی قطعی حرمت کے احکام نازل فرمائے۔ حضرت حمزہ ؓ سے نشے کی حالت میں خلاف ادب الفاظ صادر ہوئے اس لیے رسول اللہ ﷺنے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ البتہ اونٹنیوں کو ہلاک کرنے کا مالی تاوان ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ﷺ کو تاوان دلایا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒنے مصنف ابن شیبہ ؒکے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے ہوش آنے کے بعد رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓ کو ہلاک شدہ اونٹنیوں کا حضرت حمزہ ؓ سے تاوان دلایا۔ (فتح الباري:241/6) 2۔اس لمبی حدیث کو امام بخاری ؒنے اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں مال غنیمت کے خمس سے حضرت علی ؓکو ایک جوان اونٹنی دینے کا ذکر ہے۔ 3۔واضح رہے کہ خمس کی آیت بدر کی غنیمت کے متعلق نازل ہوئی اس لیے مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کردیا گیا۔ اس میں سے ایک اونٹنی حضرت علی ؓ کو ملی تھی اور دوسری اونٹنی رسول اللہ ﷺنے انھیں مال خمس سے دی تھی جو آپ کو غنیمت کے مال سے حاصل ہوا تھا۔ واللہ أعلم۔