تشریح:
1۔حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ سیدنا عمر ؓ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے جن اموال کا فیصلہ کرانے آئے تھے وہ کل مملوکہ املاک کانہ تھا بلکہ وہ خیبر کا کچھ حصہ فدک اور مدینہ طیبہ کے صدقات سے متعلق تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی مملوکہ جائیدادیں اس سے کہیں زیادہ تھیں جن کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ حضرت عمر ؓنے بھی ان مملوکہ املاک کو تقسیم نہیں کیا بلکہ ان کا انتظام وانصرام ان کے حوالے کیا تھا چونکہ حضرت عمر ؓ کے پاس خلافت سے متعلق کام بہت ہو گئے تھے اس لیے ان جائیدادوں اور جاگیروں کی نگرانی کے لیے ان کے ہاں فرصت نہیں تھی نیز حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کو خوش کرنا بھی مقصود تھا۔ 2۔ واضح رہے کہ ان حضرات نے متعدد مرتبہ اپنے مطالبات دہرائے تھے ہمارے رجحان کے مطابق اس کی بہترین توجیہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ان کا مطالبہ علی وجہ تملیک تھا کہ انھیں ان جائیدادوں کے مالکانہ حقوق دیے جائیں اور ہمارا قبضہ تسلیم کیا جائے۔ یہ مطالبہ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کے پیش نظر تسلیم نہ کیا گیا کہ حضرات انبیاء کی جائیداد میں وراثت نہیں چلتی بلکہ وفات کے بعد ان کا ترکہ صدقے کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ دوسری دفعہ ان کا مطالبہ مالکانہ حقوق کے لیے نہیں بلکہ تولیت کے طور پر تھا کہ ہم ان املاک کے متولی بن کر تصرف کریں گے یہ بات کسی حد تک درست تھی۔ حالات کا بھی تقاضا تھا اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان حضرات کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور انھیں متولی بنا کر املاک ان کے حوالے کردیں لیکن حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے منتظم اور مدبر آدمی تھے۔ آمدنی کو بڑے سلیقے سے خرچ کرتے تھے اس کے برعکس حضرت علی ؓ کا ہاتھ کھلا تھا بے دریغ مشترکہ پیداوار سے خرچ کرتے تھےاس شراکت کی وجہ سے آئے دن ان کا جھگڑا رہتا تھا اس لیے آخری مرتبہ شراکت کی تقسیم کا بھی مطالبہ کیا گیا اگر ایسا کردیا جاتا تو پھر وہی مالکانہ تقسیم ہو جاتی۔ گویا حضرت عباس ؓ نے اپنے بھتیجے کی نصف جائیدا د لے لی اور حضرت علی ؓنے اپنی زوجہ محترمہ کا نصف ترکہ وصول کرلیا اس بنا پر حضرت عمر ؓ اس دفعہ تقسیم پر راضی نہ ہوئے اور فرمایا: تم مل کر کام کرتے رہو تو بہتر بصورت دیگر ان کا قبضہ مجھے واپس کردو تاکہ میں حسب سابق اس کا انتظام کروں۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا غالباً مقصد یہ ہے کہ خمس صرف اس جائیداد میں فرض ہے جو بطور غنیمت حاصل کیا جائے اور کفارسے بہ زور حاصل کیا جائے۔ اس کے برعکس اگر صلح سے کوئی مال حاصل کیا ہے اور فے کے طور پر قبضے میں آئے تو اس میں خمس وغیرہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔