قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بابُ فَرْضِ الخُمُسِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3094. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الفَرْوِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الحَدَثَانِ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ، - ذَكَرَ لِي ذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الحَدِيثِ، فَقَالَ مَالِكٌ - بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي أَهْلِي حِينَ مَتَعَ النَّهَارُ، إِذَا رَسُولُ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ يَأْتِينِي، فَقَالَ: أَجِبْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى رِمَالِ سَرِيرٍ، لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ، مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَ: يَا مَالِ، إِنَّهُ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ قَوْمِكَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ، فَاقْبِضْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، لَوْ أَمَرْتَ بِهِ غَيْرِي، قَالَ: اقْبِضْهُ أَيُّهَا المَرْءُ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوا، فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا، ثُمَّ جَلَسَ يَرْفَا يَسِيرًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَدَخَلاَ، فَسَلَّمَا فَجَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الرَّهْطُ، عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا، وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ، قَالَ عُمَرُ: تَيْدَكُمْ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ؟ قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ: ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالاَ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ} [الحشر: 6]- إِلَى قَوْلِهِ - {قَدِيرٌ} [الحشر: 6]، فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلاَ اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، قَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا المَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا المَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَ عُمَرُ: ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ: إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، فَكُنْتُ أَنَا وَلِيَّ أَبِي بَكْرٍ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي، أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ: إِنِّي فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي تُكَلِّمَانِي، وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ، وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، جِئْتَنِي يَا عَبَّاسُ، تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، وَجَاءَنِي هَذَا - يُرِيدُ عَلِيًّا - يُرِيدُ نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقُلْتُ لَكُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»، فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ: لَتَعْمَلاَنِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَبِذَلِكَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ؟ قَالَ الرَّهْطُ: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ؟ قَالاَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ، فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، لاَ أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ، فَإِنِّي أَكْفِيكُمَاهَا

مترجم:

3094.

حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں دن چڑھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھا ہواتھا کہ اچانک حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرف سے ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا: امیر المومنین آپ کو بلارہے ہیں۔ میں اس کے ساتھ ہی روانہ ہوگیا حتیٰ کہ حضرت عمر ؓط کے پاس حاضر ہوا جبکہ آپ چارپائی کے بان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی گدا وغیرہ بھی نہیں تھا۔ وہ چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا۔ انھوں نے فرمایا: اے مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے تھے۔ میں نے کچھ تھوڑا سا مال ان میں تقسیم کرنے کاحکم دیا ہے، آپ اس پر قبضہ کرکے ان میں تقسیم کردیں۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اگرآپ میرے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے توبہتر تھا۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کے بندے!تم اسے اپنے قبضے میں کرکے ان میں تقسیم کردو۔ میں ان کے پاس ہی بیٹھاتھا کہ ان کا دربان یرفا آیا وہ عرض کرنے لگا کہ آپ حضرت عثمان ؓ، عبدالرحمان بن عوف ؓ، زبیر ؓ اور سعد بن ابی وقاص ؓ کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ وہ آ پ کے پاس آنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ انھیں اجازت دے دی تو وہ اندر آئے۔ انھوں نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد یرفا پھر آیا، اس نے عرض کیا: آپ حضرت علی ؓ اور ابن عباس  ؓکو بھی آنے کی اجازت دیتے ہیں؟انھوں نے فرمایا: ہاں۔ ان کو اجازت دی تو وہ اندر آئے، سلام عرض کیا اور بیٹھ گئے۔ پھرحضرت عباس  ؓنے کہا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کردیں۔ ان دونوں حضرات کا اس کے متعلق تنازعہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے اموال میں سے اپنے رسول ﷺ کو بطور فے دیا تھا۔ حضرت عثمان  ؓاور ان کے ساتھیوں نے بھی تائید کی کہ اے امیر المومنین ؓ! ان میں تصفیہ کرادیں اور ایک کو دوسرے سے آرام پہنچائیں۔ حضرت عمر  ؓنےفرمایا: اچھا تو پھرذرا ٹھہریے!میں تمھیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جسکے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم جانتے ہوکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم انبیاء ؑ کسی کے لیے وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ (لوگوں کے لیے) صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ آپ کی مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات کریمہ تھی؟ انھوں نے بیک زبان ہوکر کہا کہ واقعی آپ نے ایسا ہی فرمایا۔ پھر حضرت عمر ؓ، حضرت علی  ؓ اور حضرت عباس  ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیاتم جانتے ہوکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسا فرمایا تھا؟ (انھوں نے عرض کیا: بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے یہی ارشاد فرمایا تھا)حضرت عمر  نے فرمایا: میں تمھیں اس کے متعلق (کچھ وضاحت سے) بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے مال میں اپنے رسول ﷺ کو خاص کیا، اس میں سے آپ کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں دیا، پھر آپ نے (آیت فے) تلاوت فرمائی: ’’اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اپنے رسول پر عطیہ فرمایا، تم لوگوں نے اس پر اپنے اونٹ گھوڑے نہیں دوڑائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جس شخص پر چاہے قبضہ دے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ گویا فے کا مال، خالص رسول اللہ ﷺ نے اسے تم سے روک کراپنے لیے جمع نہیں کیا کہ خود کو تم پر ترجیح دی ہوبلکہ آپ نے وہ فے کامال بھی تمھیں دے دیا ہے اور تم پر اسے صرف کردیا ہے۔ اب ان اموال میں سے صرف یہ مال باقی رہ گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ وہ اس مال سے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے تھے کہ اس سے سال بھر کا خرچہ نکال کر باقی مال وہاں خرچ کردیتے جہاں اللہ کا مال خرچ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ زندگی بھر ایسا ہی کرتےرہے۔ میں تمھیں  اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا یہ صحیح ہے؟ سب نے کہا: ہاں (صحیح ہے) پھر آپ نے (خصوصیت کے ساتھ) حضرت علی  ؓاور حضرت عباس  ؓ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھا: کیا تم بھی اسے صحیح خیال کرتے ہو؟ (انھوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔) اس کے بعد حضرت عمر  ؓنے کہا: پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو وفات دی تو حضرت ابو بکر  ؓنے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں اور انھوں نے یہ اموال اپنے قبضے میں لیے اور ان میں وہی عمل کیا جو رسول اللہ ﷺ زندگی بھر کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابو بکر  ؓاس معاملے میں راست باز، نیکوکار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر  ؓ کو وفات دے دی تو میں ابو بکر  ؓ کاجانشین ہوا۔ میں نے اپنی خلافت کے دو سال تک اس جاگیر پر قبضہ رکھا اور اس کے متعلق وہی طرف عمل اختیار کیے رکھا جو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر  ؓ کرتے تھے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے اس معاملے میں صداقت کا دامن نہیں چھوڑا، نیکوکار، ہدایت یافتہ اور حق کا پیروکاررہا۔ پھر تم دونوں حضرات میرے پاس آئے اور گفتگو کرنے لگے۔ تمہارا مطالبہ بھی ایک اور معاملہ بھی ایک تھا۔ اے عباس ؓ! تم اس لیے آئے کہ اپنے بھتیجے کا حصہ مانگتے تھے اور حضرت علی  اس لیے آئے کہ وہ اپنی بیوی کاحصہ باپ کی جائیداد سے مانگتے تھے۔ میں نے تم دونوں سے کہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’انبیاء وراثت نہیں چھوڑتے۔ ان کا ترکہ سب صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ پھر سوچ بچار کے بعد مجھے مناسب معلوم ہواکہ وہ مال (تولیت کے طور پر) تمھیں دے دوں، تو میں نے تم سے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں اس شرط پر اسے تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ تم مجھےاللہ کا عہدوپیمان دو کہ تم اس میں وہی کچھ کرو گے جو رسول اللہ ﷺ ابوبکر  ؓ اور جو کچھ میں نے ابتدائے خلافت سے اب تک کیا ہے۔ تم دونوں نے کہا تھا کہ اس کو ہمارے حوالے کردو، تو میں نے اس شرط پر اسے تمہارے حوالے کردیا۔ اب میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ میں نے اس شرط پر وہ جاگیر تمہارے حوالے کی تھی؟ وہاں موجود تمام لوگوں نے کہا: ہاں۔ پھر حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ، اور حضرت عباس  ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا میں نے وہ مال اس شرط پر تمہارے حوالے کیاتھا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ پھر حضرت عمر  ؓنے فرمایا: اب تم مجھ سے اس کے خلاف کوئی فیصلہ طلب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہیں، میں ان اموال میں اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اگر تم اس کے انتظامات سے عاجز آگئے ہوتو اسے میرے حوالے کردو۔ میں تمہاری طرف سے ان اموال کے انتظام کرنے کے لیے کافی ہوں۔