قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَمَا نُسِبَ مِنَ البُيُوتِ إِلَيْهِنَّ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب: 33] وَ {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} [الأحزاب: 53]

3100. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، وَفِي نَوْبَتِي، وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، وَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بِسِوَاكٍ، «فَضَعُفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَأَخَذْتُهُ، فَمَضَغْتُهُ، ثُمَّ سَنَنْتُهُ بِهِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ پاک نے سورہ احزاب میں فرمایا کہ ” تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو ‘‘۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) ” نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے ۔تشریح:مجتہد مطلق امام بخارییہ باب منعقد کر کے بتلانا چاہتے ہیں کہ ابیات و حجرات بنوی آپ کی حیات طیبہ میں جس جس طور پر جن جن بیویوں کو تقسیم تھے۔آپ کی وفات کے بعد وہ اسی طرح رہے ان میں کوئی ورثہ نہیں تقسیم کیا گیا اور یہ اس لئے کہ آنحضرتﷺ خود فرما گئے تھے کہ ہمارا کو ئی ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔گروہ انبیاء میں اللہ کا قانون یہی رہا وہ صرف علم دین کی دولت چھوڑ کر جاتے تھے بہ سلسلہ تذکرہ خمس اس مسئلہ کوبھی بیان کر دیا گیا اور خمس کا تعلق جہاد سے ہے اس لئے ذیلی طور پر یہ مسائل کتاب الجہاد میں مذکور ہوئے۔پہلی آیت میں گھروں کی نسبت بیویوں کی طرف فرمائی‘دوسری آیت میں ان ہی گھروں کو پغمبرﷺ کے گھر فرمایا۔اس سے حضرا امام بخاری نے باب کا مطلب ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ کی بیویوں کو جیسے آپ کی وفات کے بعد اپنے خرچہ کا حق تھا ویسے ہی اپنے اپنے حجروں پر بھی ان کا حق تھا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا اور کسی اور سے ان کا نکاح حرام کردیا(وحیدی)

3100.

حضرت عائشہ  ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی وفات میرے گھر میں ہوئی اور میری باری کے دن ہوئی جبکہ آپ کا سر مبارک میری گردن اور میرے سینے کے درمیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آخری وقت میں میرے اور آپ کے تھوک مبارک کو جمع فرمادیا۔ وہ اس طرح کہ عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسواک لے کر حاضر ہوئے چونکہ نبی کریم ﷺ اس کے استعمال سے کمزور تھے تو میں نے مسواک کو پکڑا اور اسے چبایا پھر آپ کو مسواک کرائی۔