تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ کا نکاح ثانی اس طرح ممکن ہے کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرلے۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5230) اس کے بعد حضرت علی ؓنے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ترک کردیا۔ (صحیح البخاري، الفضائل، حدیث:3729) 2۔ رسول اللہ ﷺنے ابوجہل کی بیٹی اور اپنی لخت جگت دونوں کو نہ جمع کرنے کی دوعلتیں بیان کی ہیں: ©۔ ایسا کرنے سے مجھے تکلیف ہوگی جوشرعاً حرام ہے۔ ©۔ ایسا کرنے سے میری بیٹی کا دین خراب ہوگا۔ اس آخری علت کامفہوم یہ ہے کہ سوتن کی طرف سے اسے جو تکلیف ہوگی وہ اس کے دین کو بگاڑ دے گی اور وہ اس پر صبر نہیں کرسکے گی۔ 3۔ حضرت مسور ؓنے یہ قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ رسول اللھ ﷺنے اپنی بیٹی کی دلجوئی فرمائی اور اس طرح میں بھی آپ کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں۔ اس بنا پر یہ تلوارمجھے دے دو، میں اس کی حفاظت کروں گا۔ 4۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :یہ وہی ذوالفقار نامی تلوار تھی جو رسول اللہ ﷺ کو غزوہ بدر میں بطور غنیمت ملی تھی اور غزوہ احد کے موقع پر اس کے متعلق ایک خواب بھی دیکھا تھا۔ (جامع الترمذي، السیر، حدیث:1561و فتح الباري:257/6) وہ تلوار رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی ؓکو دے دی، پھر وہ ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوگئی۔ اس طرح اس میں وراثت وغیرہ کا سلسلہ جاری نہیں ہوا۔