تشریح:
1۔ حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺابوالقاسم اس لیے تھے کہ آپ لوگوں میں مال ومتاع تقسیم کرنے والے تھے اگرچہ آپ کے صاحبزادے کا نام بھی قاسم تھا لیکن آپ نے اس وجہ سے کنیت ذکر نہیں فرمائی۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاری کو بچے کا نام قاسم رکھنے سے منع کیا گیا،حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا نام قاسم نہیں بلکہ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی، اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی بچے کا نام قاسم رکھاجائے گا تو اس کا والد ابو القاسم ہوگا۔ اس بنا پر باپ کی کنیت رسول اللہ ﷺ کی کنیت جیسی ہوگی، ایسا التباس اور اشتباہ سے بچنے کے لیے تھا۔ 3۔یاد رہے کہ نام یا کنیت رکھنے کی ممانعت رسول اللہ ﷺ کی زندگی تک محدود تھی۔ اب کسی قسم کے اشتباہ یا التباس کا اندیشہ نہیں ہے، لہذا دونوں جائز ہیں۔ 4۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف خمس کی نسبت اس اعتبار سے ہے کہ آپ اسے تقسیم کرنے والے ہیں، مالک نہیں ہیں۔ امام بخاری ؒنے اپنے مدعا پر اس طرح دلیل قائم کی ہے کہ آپ نے اپنانام قاسم رکھا ہے۔ دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ واللہ أعلم۔