تشریح:
1۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عطا کرنے والا اور منع کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، رسول اللہ ﷺ کو جو حکم ہوتا آپ اس کے مطابق عمل کرتے۔ 2۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اموال غنیمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس کی تقسیم امر الٰہی، یعنی اللہ کے حکم کے مطابق میرا کام ہے۔ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے جس کو جو کچھ مل جائے اسے بخوشی قبول کرلے اور جو ملے گا اس میں رسول اللہ ﷺ کا ذاتی کوئی عمل دخل نہیں ہوگا بلکہ وہ عین اس حق کے مطابق ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مال خمس کے مالک نہیں تھے بلکہ آپ صرف قاسم تھے اور تقسیم بھی امرالٰہی کے مطابق کرتے تھے۔