تشریح:
1۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا مطلب تھا کہ مرغی نہ کھانے کی قسم اٹھانا اچھا نہیں کیونکہ مرغی حلال جانور ہے۔ اسے کھاؤ اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھائی حالانکہ اس کے لیے قسم توڑنا اس پر قائم رہنے سے بہتر ہے تو اس قسم کو توڑ دیا جائے اور ایسی قسم کاکفارہ لازم ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اونٹ آئے تھے وہ مال خمس سے تھے اور رسول اللہ ﷺنے لوگوں کی ضروریات کے لیے انھیں دے دیے۔ مال غنیمت تو مجاہدین میں تقسیم ہو گیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں خمس بھیجا گیا جو آپ نے اپنی صوابدید کے مطابق صرف کیا۔ واللہ أعلم۔