تشریح:
1۔ حدیث کے آخری حصے کے یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بدبخت !اگر میں عدل نہ کروں تو اور کون عدل کرے گا۔‘‘ امام نووی ؒنے اس معنی کو راجح قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:291/6) چونکہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی صوابدید کے مطابق مال خمس تقسیم کرنے کا اختیار تھا اور آپ نے کسی کو اس کی نمایاں خدمات کی وجہ سے زیادہ دیا ہو گا تبھی تو اعتراض کرنے والے نے رسول اللہ ﷺ پر بے انصافی کا الزام لگایا جو مبنی برحقیقت نہیں تھا۔ 2۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد آنے والے حکمرانوں کو غنیمت فے جزیے اور مال خمس وغیرہ میں صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔ آپ جنھیں چاہیں دیں اور جنھیں چاہیں نہ دیں۔ واللہ أعلم۔