قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابُ مَنْ لَمْ يُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ، )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَلَهُ سَلَبُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُخَمِّسَ، وَحُكْمِ الإِمَامِ فِيهِ

3141. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ المَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ، فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بِغُلاَمَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ - حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا، تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا - فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، مَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَئِنْ رَأَيْتُهُ لاَ يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الأَعْجَلُ مِنَّا، فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، فَغَمَزَنِي الآخَرُ، فَقَالَ لِي مِثْلَهَا، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ، قُلْتُ: أَلاَ إِنَّ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي سَأَلْتُمَانِي، فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا، فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلاَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَاهُ فَقَالَ: «أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟»، قَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ: «هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟»، قَالاَ: لاَ، فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: «كِلاَكُمَا قَتَلَهُ، سَلَبُهُ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ»، وَكَانَا مُعَاذَ ابْنَ عَفْرَاءَ، وَمُعَاذَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ،

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 وہ سامان تقسیم میں شریک ہوگا نہ اس میں سے خمس لیا جائے گا بلکہ وہ سارا قاتل کو ملے گا اور امام کا ایسا حکم دینے کا بیان

3141.

حضرت عبدالرحمان بن عوف   ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے وقت صف بندی میں کھڑا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھاتو دو انصاری کم سن لڑکے دکھائی دیے۔ میں نے (اول میں) خواہش کی کہ کاش! میں دو طاقتور اور ان سے زیادہ عمر والوں کے درمیان کھڑا ہوتا۔ اچانک ان میں سے ایک نے میری طرف اشارہ کرکے آہستہ آواز سے پوچھا: اے چچا!تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟، میں نے کہا: ہاں۔ لیکن اے بھتیجے!تجھے اس سے کیا کام ہے؟لڑکے نے جواب دیا: مجھے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے وہ جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مرنہ جائے۔ میں نے اس کی جرات پر بڑا تعجب کیا۔ اتنے میں مجھ سے دوسرے نے آہستگی سے دریافت کیا اور اس نے بھی وہی کہا ہے جو پہلے نے کہاتھا۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابو جہل دکھائی دیا جو لوگوں میں ٹہل رہاتھا۔ میں نے (ان دونوں سے) کہا : سنو!وہ ہے جس کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ یہ سنتے ہی انھوں نے تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے۔ پھر زبردست حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس کی خبر دی۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’تم میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے؟‘‘ ان میں سے ہر ایک نے جواب دیا کہ میں نے اس لعین کو مارا ہے پھر آپ نے پوچھا: ’’کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کرلی ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ پھر آپ نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا: ’’واقعی تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ اس کا تمام سامان معاذ بن عمرو بن جموح   ؓ کو دیا۔ وہ دونوں لڑکے معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح   ؓتھے۔ (راوی حدیث) محمد نے کہا کہ یوسف نے صالح سے اور ابراہیم نے اپنے باپ عبدالرحمان بن عوف سے سنا ہے۔