ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(اہل کتاب میں سے) ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں(جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق ہی کو اپنا دین بناتے ہیں یہاں تک وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں)اور وہ حقیر وذلیل ہوں۔ "
صَاغِرُونَکے معنی ہیں ذلیل بن کررہیں۔ لفظ الْمَسْكَنَةُ مسکین کا مصدر ہے۔ عرب کے اس محاورے سے ماخوذ ہے کہ فلان اسكن من فلان یعنی وہ فلاں سے زیادہ محتاج ہے کہ اسے کسی کروٹ سکون میسر نہیں۔ اس کاماخذ سکون نہیں ہے۔
یہود ونصاریٰ، مجوسیوں اور عجمیوں سے جزیہ لینے میں جوروایات ہیں ان کا بیان۔
حضرت ابن عیینہ نے ابن ابی نجیح سے بیان کیا، انھوں نے کہا: میں نے امام مجاہد سے پوچھا کہ اہل شام کا کیا حال ہے، ان سے فی کس چار دینار لیے جاتے ہیں جبکہ اہل یمن سے ایک دینار لیاجاتا ہے؟انھوں نے فرمایا کہ یہ فرق دولتمندی کی وجہ سے ہے۔
فائدہ: ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جزیے میں تفاوت جائز ہے، اس میں کمی بیشی کا اختیار امام کو ہے۔ جزیے کے نام سے حقیر سی رقم غیر مسلم رعایا پر اسلامی حکومت کی طرف سے ایک حفاظتی ٹیکس ہے۔ جس کی ادائیگی ان غیر مسلم حضرات کی وفاداری کانشان ہے۔ اس کی ادائیگی کے بعد اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے مال وجان اور عزت وآبرو، نیز مذہب کی پورے طور پر حفاظت کرے۔ اگر اسلامی حکومت اس میں ناکام ہوتو اسے جزیہ لینے کاکوئی حق نہیں ہوگا۔ مذکورہ آیت کریمہ اہل کتاب سے جزیہ لینے کے متعلق نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اقلیت اقوام سے جزیہ لینا احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ آئندہ اس کا بیان ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عمروبن دینار سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جابر بن زید اور عمروبن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان دونوں بزرگوں سے بجالہ نے بیان کیا کہ ۰۷ھ میں جس سال مصعب بن زبیر ؓ نے بصرہ والوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ زمزم کی سیڑھیوں کے پاس انہوں نے بیان کیا تھا کہ میں احنف بن قیس ؓ کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا۔ تو وفات سے ایک سال پہلے عمر بن خطاب ؓ کا ایک مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس پارسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہو تو ان کو جدا کردو اور حضرت عمر ؓ نے پارسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا۔
حدیث حاشیہ: