قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِزْيَةِ (بَابُ الجِزْيَةِ وَالمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قَاتِلُوا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلاَ بِاليَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ} [التوبة: 29] " يَعْنِي: أَذِلَّاءُ، {وَالمَسْكَنَةُ} [البقرة: 61] مَصْدَرُ المِسْكِينِ، فُلاَنٌ أَسْكَنُ مِنْ فُلاَنٍ: أَحْوَجُ مِنْهُ، وَلَمْ يَذْهَبْ إِلَى السُّكُونِ «وَمَا جَاءَ فِي أَخْذِ الجِزْيَةِ مِنَ اليَهُودِ، وَالنَّصَارَى، وَالمَجُوسِ وَالعَجَمِ» وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ قُلْتُ: لِمُجَاهِدٍ، مَا شَأْنُ أَهْلِ الشَّأْمِ، عَلَيْهِمْ أَرْبَعَةُ دَنَانِيرَ، وَأَهْلُ اليَمَنِ عَلَيْهِمْ دِينَارٌ، قَالَ: «جُعِلَ ذَلِكَ مِنْ قِبَلِ اليَسَارِ»

3156. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرًا، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَمْرِو بْنِ أَوْسٍ فَحَدَّثَهُمَا بَجَالَةُ، - سَنَةَ سَبْعِينَ، عَامَ حَجَّ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ بِأَهْلِ الْبَصْرَةِ عِنْدَ دَرَجِ زَمْزَمَ -، قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَمِّ الأَحْنَفِ، فَأَتَانَا كِتَابُ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ، فَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنَ المَجُوسِ، وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الجِزْيَةَ مِنَ المَجُوسِ،

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو وہ حرام مانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق کو انہوں نے قبول کیا ( بلکہ الٹے وہ لوگ تم ہی کو مٹانے اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے جنگ پر آمادہ ہو گئے ) ۔ ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی تھی ( مثلاً یہود و نصاریٰ ) یہاں تک ( مدافعت کرو ) کہ وہ تمہارے غلبہ کی وجہ سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور وہ تمہارے مقابلہ پر دب گئے ہوں ‘ ‘ ۔ ( صاغرون کے معنی ) اذلاء کے ہیں ۔ اور ان احادیث کا ذکر جن میں یہود ، نصاریٰ ، مجوس اور اہل عجم سے جزیہ لینے کا بیان ہوا ہے ۔ ابن عیینہ نے کہا ، ان سے ابن ابی نجیح نے کہا کہ میں نے مجاہد سے پوچھا ، اس کی کیا وجہ ہے کہ شام کے اہل کتاب پر چار دینار ( جزیہ ) ہے اور یمن کے اہل کتاب پر صرف ایک دینار ! تو انہوں نے کہا کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں ۔ اس کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جزیہ کی کمی بیشی کے لیے امام کو اختیار ہے۔ جزیہ کے نام سے حقیر سی رقم غیرمسلم رعایا پر اسلامی حکومت کی طرف سے ایک حفاظتی ٹیکس ہے جس کی ادائیگی ان غیرمسلموں کی وفاداری کا نشان ہے اور اسلامی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ ان کے مال و جان و مذہب کی پورے طور پر حفاظت کی جائے گی۔ اگر اسلامی حکومت اس بارے میں ناکام رہ جائے تو اسے جزیہ لینے کا کوئی حق نہ ہوگا۔ کما لایخفیٰ۔ ( لفظ اذلاءسے آگے بعض نسخوں میں یہ عبارت زائدہے والمسکنۃ مصدر المسکین اسکن من فلان احوج منہ ولم ےذہب الی السکون )

3156.

حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان سے حضرت بجالہ نے زمزم کی سیڑھیوں کے پاس بیان کیا، اور یہ ستر ہجری کی بات ہے جس سال حضرت مصعب بن زبیر نے اہل بصرہ کے ہمراہ حج کیا تھا، انھوں نے کہا: میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا تو حضرت عمر بن خطابؓ کی وفات سے ایک سال پہلے ان کا مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس مجوسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہوتو ان دونوں کے درمیان تفریق کردو۔ اور حضرت عمر ؓ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے۔