تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ غسل حیض کی امتیازی حیثیت کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں، اس سے پہلے بتایا تھا کہ غسل حیض کے وقت کستوری کا استعمال غسل جنابت سے مابہ الامتیاز ہے اور اس عنوان میں ثابت کیا کہ غسل حیض کے وقت جنابت کے برعکس سر کے پراگندہ بالوں کی پراگندگی کو کنگھی کے ذریعے سے دور کرنا ہوگا، تاکہ انھیں دھونے میں آسانی رہے۔ آئندہ باب میں بالوں کی مینڈھیوں کو کھولنے کا ذکر ہوگا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک غسل حیض کے وقت نقض راس (سر کے بالوں کا کھولنا ) ضروری ہے، جبکہ غسل جنابت میں ان کا کھولنا ضروری نہیں۔ جیسا کہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا کہ میں اپنے بالوں کی بہت مینڈھیاں کرتی ہوں، کیا مجھے غسل جنابت کے وقت انھیں کھولنا ہو گا؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 744 (330)) البتہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ اس معاملے میں سختی کیا کرتے تھے، وہ عورتوں کو غسل جنابت کے وقت بھی سر کھولنے کا حکم دیتے تھے۔ رد عمل کے طور پر حضرت عائشہ ؓ فرماتیں کہ وہ سر کھولنے کے بجائے سر منڈوانے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ رسول اللہ ﷺ اور میں (اکٹھے مل کر )ایک ہر برتن سے غسل کیا کرتے تھے اور میں اپنے سر پر تین بار ہی پانی بہاتی تھی۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 747 (331)) صحیح مسلم ہی کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اُم سلمہ ؓ کو فرمایا تھا کہ تمھیں اپنے سر پر صرف تین چلو پانی ڈال لینا کافی ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:744 (330)) امام بخاری ؒ کے نزدیک بالوں کے متعلق تخفیفی حکم غسل جنابت میں ہے، غسل حیض میں نہیں، غسل حیض میں بالوں کو کھول کر ان میں کنگھی کرنی ہوگی، لیکن جمہور اسے مستحب کہتے ہیں، کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے غسل جنابت اور غسل حیض دونوں کے متعلق پوچھا تھا کہ ان میں بالوں کا کھولنا ضروری ہے؟ تو آپ نے فرمایا تھا کہ نہیں۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:745 (330)) (بعض علماء نے اس روایت میں (والحیضة) کے الفاظ کو شاذ قراردیا ہے اور یہی بات راجح ہے۔ اس لیے جمہور کا استدلال درست نہیں۔ جمہور کے نزدیک غسل جنابت اور غسل حیض میں کوئی فرق نہیں، بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے۔ اگر بالوں کو کھولے بغیر یہ کام ہو جائے تو انھیں کھولنے کی ضرورت نہیں۔ اگر بغیر کھولے جڑوں تک پانی نہ پہنچ سکے تو کھولنا ضروری ہے، ہمارے نزدیک صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح ہے، جس میں غسل حیض کے وقت بالوں کو کھولنے کا ذکر ہے۔ واضح رہے کہ حدیث الباب میں غسل کا ذکر نہیں ہے، لیکن عنوان میں امام بخاری نے غسل کی قید لگائی ہے، ان کے نزدیک بالوں کو کھولنا اور ان میں کنگھی کرنا غسل سے کنایہ ہے یا انھوں نے دوسری روایات پر اعتماد کیا ہے جن میں غسل کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2937 (1213)) اب دو صورتیں ہیں۔ © اس غسل کو حیض ہی سے متعلق قراردیا جائے، اگرچہ حیض ابھی ختم نہیں ہوا، تاہم غسل نجاست کی تخفیف و تقلیل کی غرض سے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ © غسل احرام کو سنت تسلیم کیا جائے جس میں جسم کی نظافت وصفائی پیش نظر ہوتی ہے۔ غسل احرام سنت کے درجے میں ہے۔ اگر اس کی نظافت و صفائی کی وجہ سے غسل کے وقت بال کھولنے اور ان میں کنگھی کرنے کی ضرورت ہو تو غسل حیض میں بدرجہ اولیٰ اس ضرورت کو تسلیم کرنا پڑے گا، صفائی اور پاکیزگی کا مقصد تو دونوں جگہ موجود ہے، بلکہ غسل حیض کو جو اہمیت حاصل ہے، وہ کسی صورت میں غسل احرام کو نہیں، کیونکہ غسل حیض فرض ہے اور اس میں نجاست کا ازالہ مقصود ہوتا ہے، جبکہ غسل احرام سنت ہے اور اس میں صرف جسم کی صفائی پیش نظر ہوتی ہے۔ (فتح الباري:541/1) 2۔ شب محصب سے مراد وہ رات ہے جس میں حج سے فراغت کے بعد اہل مدینہ قافلہ بندی کے لیے ٹھہرتے تھے. ان کا مقام پڑاؤ وادی محصب تھا جو مکہ اور منی کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ پھر وہاں سے جمع ہو کر رات کے آخری حصے میں مدینے کی طرف روانگی ہوتی تھی. ذوالحجہ کی تیرھویں یا چودھویں رات کو لیلة الحصبة یا شب محصب کہا جاتا ہے۔