باب : اگر بستی کے حاکم سے صلح ہوجائے تو بستی والوں سے بھی صلح سمجھی جائے گی
)
Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: Truce with the king of a country)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3182.
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں حصہ لیا۔ اس دوران میں ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم ﷺ کو ایک سفید خچر تحفہ دیا تو آپ نے بھی اسے ایک چادر خلعت پہنائی، نیز آپ نے ان کا بحری علاقہ اسی کے نام لکھ دیا تھا۔
تشریح:
1۔ "ایلہ" حجاز اور شام کی سرحد پر ایک قدیم شہر آباد ہے جسے دورحاضر میں مدینہ عقبہ کہا جاتا ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کا ہدیہ قبول کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان سے مصالحت کرلی، نیز آپ کا اس کو سمندری علاقے کی حکومت لکھ کردینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بادشاہ اور رعایا سب اس مصالحت میں شامل ہیں کیونکہ بادشاہ کی مصالحت، رعایا کی مصالحت قرارپاتی ہے۔ لوگوں کی قوت بادشاہ کے ساتھ ہوتی ہے اور رعایا کے تمام لوگ بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں، لہذا وہ ان سے علیحدہ نہیں ہوسکتا اور نہ وہ بادشاہ ہی سے علیحدہ رہ سکتے ہیں۔ 3۔لفظ لھم میں جمع کی ضمیر بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ تمام رعایا اس میں شامل ہے اگرچہ ایک روایت میں مفرد کی ضمیر ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1481) تاہم اس سے بھی مدعا واضح ہے کہ بادشاہ کی مصالحت باقی تمام رعایا کی مصالحت ہوگی۔ 4۔ دراصل امام بخاری ؒنے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ایلہ کے بادشاہ اور اس کے رعایا کے لیے امن کی صراحت ہے۔ اسے ابن اسحاق نے اپنی تالیف السیرۃ میں نقل کیاہے۔ اس کے الفاظ ہیں:جب رسول اللہ ﷺ تبوک پہنچے تو آپ کے پاس ایلہ کا بادشاہ آیا تو اس نے آپ کو جزیہ پیش کیا اور آپ سے مصالحت کی تو رسول اللہ ﷺنے ان الفاظ میں پروانہ لکھ کر اس کے حوالے کیا:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’’یہ پروانہ امن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ایلہ کے بادشاہ اور اس کی رعایا کے لیے ہے۔‘‘ (فتح الباري:321/6)
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں حصہ لیا۔ اس دوران میں ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم ﷺ کو ایک سفید خچر تحفہ دیا تو آپ نے بھی اسے ایک چادر خلعت پہنائی، نیز آپ نے ان کا بحری علاقہ اسی کے نام لکھ دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ "ایلہ" حجاز اور شام کی سرحد پر ایک قدیم شہر آباد ہے جسے دورحاضر میں مدینہ عقبہ کہا جاتا ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کا ہدیہ قبول کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان سے مصالحت کرلی، نیز آپ کا اس کو سمندری علاقے کی حکومت لکھ کردینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بادشاہ اور رعایا سب اس مصالحت میں شامل ہیں کیونکہ بادشاہ کی مصالحت، رعایا کی مصالحت قرارپاتی ہے۔ لوگوں کی قوت بادشاہ کے ساتھ ہوتی ہے اور رعایا کے تمام لوگ بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں، لہذا وہ ان سے علیحدہ نہیں ہوسکتا اور نہ وہ بادشاہ ہی سے علیحدہ رہ سکتے ہیں۔ 3۔لفظ لھم میں جمع کی ضمیر بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ تمام رعایا اس میں شامل ہے اگرچہ ایک روایت میں مفرد کی ضمیر ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1481) تاہم اس سے بھی مدعا واضح ہے کہ بادشاہ کی مصالحت باقی تمام رعایا کی مصالحت ہوگی۔ 4۔ دراصل امام بخاری ؒنے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ایلہ کے بادشاہ اور اس کے رعایا کے لیے امن کی صراحت ہے۔ اسے ابن اسحاق نے اپنی تالیف السیرۃ میں نقل کیاہے۔ اس کے الفاظ ہیں:جب رسول اللہ ﷺ تبوک پہنچے تو آپ کے پاس ایلہ کا بادشاہ آیا تو اس نے آپ کو جزیہ پیش کیا اور آپ سے مصالحت کی تو رسول اللہ ﷺنے ان الفاظ میں پروانہ لکھ کر اس کے حوالے کیا:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’’یہ پروانہ امن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ایلہ کے بادشاہ اور اس کی رعایا کے لیے ہے۔‘‘ (فتح الباري:321/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے عمروبن یحییٰ نے، ان سے عباس ساعدی نے اور ان سے ابوحمید ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہم غزوہ تبوک میں شریک تھے۔ ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے آنحضرت ﷺ کو ایک سفید خچر بھیجا اور آپ ﷺ نے اسے ایک چادر بطور خلعت کے اور ایک تحریر کے ذریعہ اس کے ملک پر اسے ہی حاکم باقی رکھا۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت ابن اسحاق میں یوں ہے کہ جب آپ ﷺ تبوک کو جارہے تھے، تو یوحنا بن روبہ ایلہ کا حاکم آپ کی خدمت میں آیا۔ اس نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور آپ نے اس سے صلح کرکے سند امان لکھ کر دے دی، اس سے ترجمہ باب یوں نکلا کہ آپ نے یوحنا سے صلح کی تو سارے ایلہ والے امن اور صلح میں آگئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Humaid As-Saidi (RA): We accompanied the Prophet (ﷺ) in the Ghazwa of Tabuk and the king of 'Aila presented a white mule and a cloak as a gift to the Prophet. And the Prophet (ﷺ) wrote to him a peace treaty allowing him to keep authority over his country.