قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ، لِلنَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، عَدُوُّ اليَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «لَنَحْنُ الصَّافُّونَ المَلاَئِكَةُ»)

3207. حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَهِشَامٌ، قَالاَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ البَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ، وَاليَقْظَانِ - وَذَكَرَ: يَعْنِي رَجُلًا بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ -، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ البَطْنِ، ثُمَّ غُسِلَ البَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، وَأُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ، دُونَ البَغْلِ وَفَوْقَ الحِمَارِ: البُرَاقُ، فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ جِبْرِيلُ: قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ، وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ، وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى عِيسَى، وَيَحْيَى فَقَالاَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ، وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يُوسُفَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قِيلَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الخَامِسَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْنَا عَلَى هَارُونَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا عَلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قِيلَ جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَكَى، فَقِيلَ: مَا أَبْكَاكَ: قَالَ: يَا رَبِّ هَذَا الغُلاَمُ الَّذِي بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، قِيلَ مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَرُفِعَ لِي البَيْتُ المَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا البَيْتُ المَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ، وَرُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ المُنْتَهَى، فَإِذَا نَبِقُهَا كَأَنَّهُ قِلاَلُ هَجَرَ وَوَرَقُهَا، كَأَنَّهُ آذَانُ الفُيُولِ فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ، وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا البَاطِنَانِ: فَفِي الجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ: النِّيلُ وَالفُرَاتُ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاَةً، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جِئْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاَةً، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ، عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ المُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَسَلْهُ، فَرَجَعْتُ، فَسَأَلْتُهُ، فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، ثُمَّ ثَلاَثِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عِشْرِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عَشْرًا، فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مِثْلَهُ، فَجَعَلَهَا خَمْسًا، فَأَتَيْتُ مُوسَى فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُجَعَلَهَا خَمْسًا، فَقَالَ مِثْلَهُ، قُلْتُ: سَلَّمْتُ بِخَيْرٍ، فَنُودِيَ إِنِّي قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي، وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي، وَأَجْزِي الحَسَنَةَ عَشْرًا، وَقَالَ هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي البَيْتِ المَعْمُورِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

  حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول الہ ﷺسے عرض کیا کہ جبرئیل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے سورۃ والصافات میں بیان کیا کہ لنحن الصافون میں مراد ملائکہ ہیں۔ تشریح : یہودی اپنی جہالت سے جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہمارے راز کی باتیں وہی آنحضرت ﷺ سے کہہ جاتا ہے یا یہ کہ یہ ہمیشہ عذاب لے کر ہی اترتا ہے۔ اس اثر کو خود امام بخاری نے باب الہجرۃ میں وصل فرمایا ہے۔ لنحن الصافون فرشتوں کی زبان سے نقل کیا کہ ہم قطار باندھنے والے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ اس اثر کو طبرانی نے وصل کیا ہے

3207.

حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں ایک دفعہ بیت اللہ کے نزدیک نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے دو آدمیوں کے درمیان ایک تیسرے آدمی کا ذکر کیا، یعنی اپنی ذات کریمہ کو دو فرشتوں کے درمیان ذکر کیا تو فرمایا: ’’میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیاگیا۔ پھر(میرے) پیٹ (کے اندرونی حصے) کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا اوراسے ایمان وحکمت سے بھر دیاگیا۔ اسکے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی جس کا رنگ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی تھی، یعنی براق، چنانچہ میں اس پر سوار ہوکرحضرت جبرئیل ؑ کے ہمراہ چل پڑا۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیل ؑ نے آسمان کے نگران فرشتے سے (دروازہ) کھولنے کو کہا تو اس نے پوچھا: کون ہے؟ کہاگیا: جبرئیل ؑ۔ پوچھا گیا: آپ کے ہمراہ کون ہے؟ کہا گیا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا انھیں بلانے کے لیے آ پ کو بھیجا گیا تھا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ اس پر جواب آیا: خوش آمدید، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔ پھر میں حضرت آدم ؑ کے پاس آیا، انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: اے بیٹے اور پیارے نبی کریم ﷺ! آپ کا آنا مبارک ہو۔ پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے تو کہا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: میں جبرئیل ؑ ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: محمد ﷺ کہا گیا: آپ کو تشریف آوری کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں۔ کہاگیا: مرحبا، آپ کی تشریف آوری مبارک ہو۔ میں وہاں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت یحییٰ ؑ کے پاس آیا تو انھوں نےکہا: اے برادر مکرم اور نبی محترم خوش آمدید! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے تو کہا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبرئیل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: حضرت محمد ﷺ پوچھا گیا: آپ کو تشریف لانے کاپیغام بھیجا گیا تھا؟ جبرئیل ؑ نےکہا: ہاں۔ کہاگیا: مرحبا، آپ کا آنا بہت اچھا ہے۔ میں وہاں حضرت یوسف ؑ کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا تو انھوں نے کہا: اے برادر عزیز اور نبی معظم! خوش آمدید۔ پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے تو کہا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: جبرئیل ؑ ہوں۔ کہا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا حضرت محمد ﷺ کہا گیا: انھیں تشریف لانے کاپیغام بھیجا گیا تھا؟ جبرئیل ؑ نے کہا: کہا گیا: مرحبا، آپ کی تشریف آوری آوری مبارک ہو۔ میں وہاں حضرت ادریس ؑ کے پاس آیا اور انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: برادر مکرم اور نبی معظم کو خوش آمدید۔ پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے تو کہا گیا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: جبرئیل ؑ ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا گیا: حضرت محمد مجتبیٰ ﷺ ۔ کہا گیا: کیا آپ کو بلایا گیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں۔ کہاگیا: مرحبا، تشریف آوری بابرکت ہو۔ ہم وہاں حضرت ہارون ؑ کے پاس آئے تو میں نے سلام کہا۔ انھوں نے کہا: پیارے بھائی اور نبی معظم! خوش آمدید۔ پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے تو کہا گیا: یہ کون ہے؟ کہا: جبرئیل ؑ ہوں۔ کہاگیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا گیا: حضرت محمد کریم ﷺ کہا گیا: آپ کو تشریف لانے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ (کہا جی ہاں۔) کہا گیا: مرحبا، آپ کی تشریف آوری باعث عزت ہے۔ میں وہاں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا اور انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: اے برادر عزیز اور نبی مکرم ﷺ!خوش آمدید۔ جب میں وہاں سے آگے بڑھا تو موسیٰ ؑ روپڑے۔ ان سے پوچھا گیا: آپ کس لیے رورہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: اے میرے رب! یہ ایک نوجوان ہے جو میرے بعد مبعوث ہوا، اس کی اُمت کے افراد میری اُمت کے افراد سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے تو کہا گیا : کون ہے؟ کہاگیا: میں جبرئیل ؑ ہوں۔ پوچھاگیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا گیا؛ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا: آپ کوتشریف آوری کاپیغام بھیجا گیا تھا؟ (کہا، ہاں) کہا گیا: مرحبا، آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ پھر میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آیا اور انھیں سلام کیا تو انھوں نے کہا: اے فرزند ارجمند اور نبی محترم!مرحبا، پھر بیت المعمور میرے لیے کھول دیا گیا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ہر روزستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ عبادت کرکے باہر نکل جائیں تو دوبارہ واپس نہیں آتے، یعنی آخر تک ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ کو میرے سامنے کیا گیا۔ اس کے بیر مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کان معلوم ہوتے تھے۔ اس کی جڑ میں چار نہریں جاری تھیں: ان میں سے دو باطنی اور دو ظاہری ہیں۔ میں نے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا توا نھوں نے بتایا کہ باطنی نہریں تو جنت کی ہیں اور ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ میں واپس آیا حتیٰ کہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا ہوا تو انھوں نے کہا کہ آ پ کیا کرکے آئے ہیں؟ میں نے کہا: مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: میں لوگوں کے حال کو آپ سے زیادہ جاننے والا ہوں کیونکہ میں نے بنی اسرائیل کاسخت تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت اسے پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھے گی، لہذا آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور وہاں عرض کریں، چنانچہ میں واپس چلا آیا اوراللہ تعالیٰ سے (تخفیف کا ) سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں کردیں۔ پھر اسی طرح کیا تو تیس کردیں۔ پھر اسی طرح ہوا تو بیس رہ گئیں۔ پھر بات چیت ہوئی تو دس رہ گئیں۔ پھر موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو انھوں نے پہلے کی طرح کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دیں۔ پھر میں موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا؛ آپ نے کیا بنایا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کردی ہیں تو انھوں نے پھر اسی طرح کہا۔ میں نے کہا: اب میں نےتسلیم کرلیا ہے۔ اب ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا ہے اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی ہے۔ میں ایک نیکی کے بدلے میں دس گنا اجر دوں گا۔ ہمام نے اپنی سند سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت بیان کی جنھوں نے بیت المعمور کےمتعلق نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے۔