تشریح:
1۔ یہ طویل حدیث واقعہ معراج سے متعلق ہے۔ امام بخاری ؒ نے اسے یہاں اس لیے بیان کیا ہے کہ اس میں فرشتوں کا ذکر ہے کہ وہ اس قدر کثرت سے ہیں جو حدود وشمار سے باہر ہیں۔ کثرت کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ بیعت المعمور میں ہرروز ستر ہزارفرشتے داخل ہوتے ہیں۔ ان میں جب کوئی فرشتہ عبادت کرکے باہر نکلتاہے تو قیامت تک اسے دوبارہ داخل ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے:’’آسمان میں چار انگلیوں کے برابر جگہ ایسی نہیں جہاں اللہ کے حضور فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔‘‘ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث:2312) 2۔ امام بخاری ؒ نے ملائکہ کا ذکر حضرات انبیاء ؑ سے پہلے کیا ہے ، حالانکہ اس امر پر اجماع ہے کہ حضرت انبیائے کرام ؑ ملائکہ سے افضل ہیں؟ اس کی تین وجوہات بیان کی جاتی ہیں: ©۔ ملائکہ کی خلقت پہلے ہے، یعنی انھیں انسانوں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے ان کا ذکر پہلے کردیا۔ ©۔ قرآنی آیات اور متعدد احادیث میں ان کا ذکر انبیائے کرام ؑ سے پہلے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے: ’’ہم سب اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث:2312) ©۔فرشتے، اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام ؑ کے درمیان ایک واسطے کی حیثیت رکھتے ہیں، بنابریں مناسب معلوم ہوا کہ ان کا ذکر انبیائے کرام ؑ سے پہلے کیا جائے۔ بہرحال ملائکہ کے حالات اور ان کی کثرت کے متعلق بہت سی احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں۔ ان کی دوقسمیں ہیں:ایک تو وہ ہیں جو ہروقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، گویا وہ ذات حق کی معرفت میں مستغرق ہیں۔ انھیں ملائکہ مقربین کہا جاتا ہے۔ اور دوسری وہ قسم ہے جو آسمان سے زمین تک قضا و قدر کے فیصلوں کے مطابق امورکو انجام دیتے ہیں۔ ان کی مختلف ڈیوٹیاں ہیں جن کا ذکرقرآن وحدیث میں موجود ہے۔ معراج سے متعلقہ دیگر مباحث آئندہ بیان ہوں گے۔ بہرحال معراج برحق ہے اور اس کا منکر گمراہ اور دین سے خارج ہے۔