تشریح:
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ﴾ ’’اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )لوگ آپ سے حیض کے متعلق دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیں کہ وہ گندا اور نقصان دہ (خون)ہوتا ہے اس لیے حالت حیض میں اپنی عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ (البقرة 2/222) قرآن کریم کی اس ظاہر نص سے عورتوں سے بحالت حیض اعتزال (علیحدگی) اور عدم قرب کا حکم ہے تو پھر اس حالت میں ان کے ساتھ لیٹنے کا جواز کیونکر ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شرعی احکام کے اثبات کے لیے اکیلا قرآن کافی نہیں جب تک صاحب قرآن کے فرمودات کو اس کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ صرف قرآن سے شرعی احکام معلوم کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔ اس سلسلے میں صرف ظاہر نص قران پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اعتزال اور عدم قربت کا مفہوم کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے آیت کے مفہوم کو بایں الفاظ متعین فرمایا: ’’حائضہ عورت کو گھر میں رہنے دو جماع کے علاوہ تمھیں ہر چیز کی اجازت ہے‘‘ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث:2165) مذکورہ حدیث اُم سلمہ ؓ نے اس کی مزید وضاحت فرمادی کہ حائضہ عورت کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے اس کے ساتھ لیٹنے الغرض جماع کے علاوہ دیگر ہر قسم کے امور استمتاع کی اجازت ہے۔ اس کی مکمل وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔