موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَيْض (بَابُ نَقْضِ المَرْأَةِ شَعَرَهَا عِنْدَ غُسْلِ المَحِيضِ)
حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
322 . حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُوَافِينَ لِهِلاَلِ ذِي الحِجَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهْلِلْ، فَإِنِّي لَوْلاَ أَنِّي أَهْدَيْتُ لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ» فَأَهَلَّ بَعْضُهُمْ بِعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ بَعْضُهُمْ بِحَجٍّ، وَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، فَشَكَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِحَجٍّ»، فَفَعَلْتُ حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الحَصْبَةِ، أَرْسَلَ مَعِي أَخِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَخَرَجْتُ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ مَكَانَ عُمْرَتِي قَالَ هِشَامٌ: «وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ هَدْيٌ، وَلاَ صَوْمٌ وَلاَ صَدَقَةٌ»
صحیح بخاری:
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
باب: حیض کے غسل کے وقت عورت کا اپنے بالوں کو کھولنے کے بیان میں۔
)مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
322. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ہلال ذی الحجہ کے قریب حج کے لیے روانہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص عمرے کا احرام باندھنا چاہے، وہ عمرے کا احرام باندھ لے اور خود میں اگر ہدی (قربانی کا جانور) نہ لایا ہوتا تو عمرے ہی کا احرام باندھتا۔‘‘ چنانچہ کچھ لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا۔ اور میں ان لوگوں میں تھی جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ مجھے عرفے کا دن بحالت حیض آیا، چنانچہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’عمرہ ترک کر دو اور سر کے بال کھول کر کنگھی کر لو، پھر حج کا احرام باندھ لو۔‘‘ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ جب وادی محصب میں پڑاؤ کی رات آئی تو آپ نےمیرے ساتھ میرے بھائی عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ کو بھیجا۔ میں (ان کے ساتھ) تنعیم تک گئی اور وہاں سے فوت شدہ عمرے کی جگہ دوسرا احرام باندھا۔ ہشام راوی کہتے ہیں کہ اب سب باتوں میں نہ قربانی لازم ہوئی، نہ روزہ رکھنا پڑا اور نہ صدقہ ہی دینا پڑا