تشریح:
1۔ حضرت عروہ بن زبیر نے جناب عمر بن عبدالعزیز ؒ کو نمازعصر کی تاخیر پر ٹوکا اور حدیث بطور دلیل پیش فرمائی، پھرحضرت عمر بن عبدالعزیز کے استفسار پرحدیث کی سند بیان کردی، جسے سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو کامل یقین حاصل ہوگیا۔ 2۔ اس حدیث سے نمازعصر کا اول وقت میں پڑھنا ثابت ہوا جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا معمول ہے۔ اس سے اوقات نماز کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ رسول اللہ ﷺ کو ان اوقات کی عملی تعلیم دینے کے لیے خود تشریف لائے اور اول وآخر دونوں وقتوں میں پانچوں نمازیں پڑھ کر تعلیم دی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اس امر پر تعجب ہوا کہ حضرت جبرئیل ؒ نے رسول اللہ ﷺ کی امامت کرائی تھی۔ اس پر جناب عروہ نے سند کے ساتھ حدیث بیان کردی۔ (صحیح البخاري، المواقیت، حدیث:521) 3۔ حضرت ابومسعود کا نام عقبہ بن عمرو انصاری سے جو زید بن حسن کے دادا اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث:4007) 4۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے حضرت جبرئیل ؒ کا وجود اور ان کی کارکردگی ثابت کی ہے۔ واللہ أعلم۔