تشریح:
1۔ ان تمام احادیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصل شکل وصورت میں دیکھا۔ انھوں نے آسمانوں کے کنارے بھردیے تھے۔ ان کے چھ سوپَر تھے اور ان کے دوپروں کے درمیان اتنا فاصلہ تھا جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔ سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت وسیع وعریض سبز قالین پر حضرت جبرئیل ؑ کوبیٹھے دیکھا تھا۔ (السنن الکبریٰ للنسائي:473/6) اکثر اوقات وہ حضرت وحیہ کلبی ؓ اور کسی اعرابی کی شکل میں آیا کرتے تھے۔ صرف دو مرتبہ اپنی اصل شکل میں سامنے آئے:ایک بار فضائے آسمان سے اُترے اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ پر ظاہر ہوئے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تو ایک نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:443(178) اس سے حضرت عائشہ ؓ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ا پنے رب کو کھلی آنکھ سے نہیں دیکھا۔ اس کے متعلق مکمل بحث ہم آئندہ کریں گے۔ إن شاء اللہ۔ 2۔ان احادیث سے مقصود صرف فرشتوں کا وجودثابت کرناہے، نیزاللہ تعالیٰ نے انھیں یہ سہولت دی ہے کہ وہ انسانی شکل وصورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ واللہ أعلم۔