تشریح:
1۔ مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورتیں عیدین میں شرکت کرسکتی ہیں، نیز ان کا مجالس خیروبرکت اور اجتماعات دعوت وارشاد میں جانا بھی درست ہے، لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ حیض والی عورتیں عیدگاہ سے الگ رہیں۔ اس کی دووجہیں ہیں: ©۔ ہنگامی طور پر عید گاہ کومسجد کا حکم دیا ہے، اس لیے حائضہ عورت کو عید گاہ میں جانے کی ممانعت ہے۔ ©۔ جب اس نے نماز نہیں پڑھنی تو نمازی عورتوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور ان کے پاس بیٹھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شارح بخاری ابن بطال ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث سے حیض والی اور پاک عورتوں کے لیے عیدین اور دینی اجتماعات میں شرکت کا جواز معلوم ہوا، البتہ حیض والی عورتیں عید گاہ سے الگ رہیں۔ دعا میں شریک ہوں گی، خود دعاکریں یاآمین کہیں، بہرحال انھیں اس مقدس اجتماع کی خیروبرکات ضرورحاصل ہوں گی۔ (شرح ابن بطال:450/1) عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کے متعلق تفصیلی بحث کتاب العیدین میں آئے گی۔ 2۔ یہ روایت بظاہر ایک مجہول عورت کے واسطے سے منقول ہے، اس اعتبار سے صحیح بخاری میں اس روایت کا آنا صحیح نہیں، لیکن جب حضرت حفصہ بنت سیرین ؒ نے حضرت ام عطیہ ؓ کی آمد پرتمام باتیں براہ راست معلوم کرلیں تو درمیان سے گمنام عورت کا واسطہ ختم ہوگیا، اب اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ مجہولہ عورت حضرت ام عطیہ ؓ کی ہمشیرہ تھی۔ واللہ أعلم۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا استنباط ہوتا ہے: ©۔ حائضہ بحالت حیض اللہ کا ذکر کرسکتی ہے اور مجالس خیر میں بھی شرکت کرسکتی ہے۔ ©۔ کسی کارخیر کے لیے باہر جانے کی ضرورت ہوتو دوسروں سے حسب ضرورت کپڑے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ©۔ مسلمان عورتوں کو بڑی چادر کے بغیر گھر سے باہرنکلنا جنائز نہیں، موجودہ دور میں بڑی چادر کا قائم مقام برقع ہے بشرطیکہ اس سے ستر کا فائدہ ہو اور اظہار زینت کے لیے نہ ہو۔دوعورتیں ایک چادر میں بھی نکل سکتی ہیں۔ ©۔ عورتیں بوقت ضرورت زخمیوں کی مرہم پٹی کرسکتی ہیں، اگرچہ وہ غیرمحرم ہوں، نیز عورتیں بیمار پرسی بھی کرسکتی ہیں۔