ترجمۃ الباب:
غَسَّاقًااہل جہنم کے جسم سے نکلنےوالے بدبو دار مادے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی آنکھ بہہ رہی ہے، زخم بہہ رہا ہے۔ غساق اورغسيق دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ غِسْلِينٍ کسی چیز دھویا جائے تو جو چیز برآمد ہو وہ غِسْلِينٍ ہےفعلينِ کے وزن پر غسل سے مشتق ہے، جو آدمی یا اونٹ کے زخم سے نکلے۔
حضرت عکرمہ نے کہا: حَصَبُ جَهَنَّمَ حبشی زبان میں اس کے معنی ایندھن کے ہیں۔ دوسروں نے کہا: اس کے معنی ہیں: تند ہوا اور آندھی۔ اور حاصب اس کو بھی کہتے ہیں جو ہوا اڑا کر لائے، اسی سے حَصَبُ جَهَنَّمَ بناہے، یعنی دوزخ میں جھونکے جائیں گے۔ وہ اس کا ایندھن بنیں گے۔ کہا جا تا ہے۔ حصب في الأرض وہ زمین میں دورچلا گیا حصب‘حصباء‘حِجَارَةً سے نکلا ہے، یعنی پتھریلی کنکریاں۔ سديد"خون اور پیپ۔ خَبَتْ "وہ بجھ جائے گی۔ تُورُونَ تم سلگاتے ہو۔ "کہا جاتا ہے اوريت یعنی میں نے آگ سلگائی۔ لِّلْمُقْوِينَ مسافروں کے لیے۔ یہ لفظ "قي" سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں۔ چٹیل میدان۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صِرَاطِ الْجَحِيمِ کے متعلق کہا: اس کے معنی ہیں۔ دوزخ کا بیچ اور دوزخ کا وسط۔ لَشَوْبًا مِّنْ حَمِيمٍ ان کے کھانے میں گرم پانی ملایا جائے گا جو کھولتا ہو گا۔ " زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ بآوازبلند رونا اور آہستہ سے رونا ہے وِرْدًا "پیاسے" غَيًّا "نقصان اور خسارہ۔ "
امام مجاہد نے کہا: يُسْجَرُونَ ان پر آگ جلائی جائے گی، یعنی وہ ایندھن بنیں گے۔ نُحَاسٌ کے معنی ہیں: تانبا، جو (پگھلا کر)ان کے سروں پر ڈالا جائےگا۔ ذُوقُوا کے معنی ہیں: دیکھو اور تجربہ کرو۔ یہ منہ سے چکھنے کے معنی میں نہیں ہے مَّارِجٍ "خالص آگ۔ "مرج الامير رعيته اس وقت کہا جا تا ہے جب امیر اپنی رعیت کو چھوڑ دے کہ وہ ایک دوسرے پر ظلم کریں۔ مَّرِيجٍ "ملاہوا۔ مشتبہ"کہاجاتا ہے۔ مرج امرالناس لوگوں کا معاملہ خلط ملط ہو گیا۔ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ دونوں سمندروں کو ملادیا۔ "یہ لفظ مَرَجْتَ دَابَّتَكَ سے مشق ہے۔ اس کے معنی ہیں۔ "تونے اپنا جانور چھوڑدیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا کہ میں نے زید بن وہب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر ؓ سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ ایک سفر میں تھے (جب حضرت بلال ؓ ظہر کی اذان دینے اٹھے تو) آپ نے فرمایا کہ وقت ذرا ٹھنڈا ہولینے دو، پھر دوبارہ (جب وہ اذان کے لیے اٹھے تو پھر) آپ نے انہیں یہی حکم دیا کہ وقت اور ٹھنڈا ہولینے دو، یہاں تک کہ ٹیلوں کے نیچے سے سایہ ڈھل گیا، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ نماز ٹھنڈے وقت اوقات میں پڑھا کرو، کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔
حدیث حاشیہ: