قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ صِفَةِ النَّارِ، وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {غَسَّاقًا} [النبأ: 25] يُقَالُ: غَسَقَتْ عَيْنُهُ وَيَغْسِقُ الجُرْحُ، وَكَأَنَّ الغَسَاقَ وَالغَسْقَ وَاحِدٌ، {غِسْلِينُ} [الحاقة: 36] كُلُّ شَيْءٍ غَسَلْتَهُ فَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ فَهُوَ غِسْلِينُ، فِعْلِينُ مِنَ الغَسْلِ مِنَ الجُرْحِ وَالدَّبَرِ " وَقَالَ عِكْرِمَةُ: {حَصَبُ جَهَنَّمَ} [الأنبياء: 98]: «حَطَبُ بِالحَبَشِيَّةِ» وَقَالَ غَيْرهُ: {حَاصِبًا} [الإسراء: 68]: الرِّيحُ العَاصِفُ، وَالحَاصِبُ مَا تَرْمِي بِهِ الرِّيحُ، وَمِنْهُ {حَصَبُ جَهَنَّمَ} [الأنبياء: 98]: يُرْمَى بِهِ فِي جَهَنَّمَ هُمْ حَصَبُهَا، وَيُقَالُ: حَصَبَ فِي الأَرْضِ ذَهَبَ، وَالحَصَبُ مُشْتَقٌّ مِنْ حَصْبَاءِ الحِجَارَةِ، {صَدِيدٌ} [إبراهيم: 16]: قَيْحٌ وَدَمٌ، {خَبَتْ} [الإسراء: 97]: طَفِئَتْ، {تُورُونَ} [الواقعة: 71]: تَسْتَخْرِجُونَ، أَوْرَيْتُ أَوْقَدْتُ، {لِلْمُقْوِينَ} [الواقعة: 73]: لِلْمُسَافِرِينَ، وَالقِيُّ القَفْرُ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {صِرَاطُ الجَحِيمِ} [الصافات: 23]: «سَوَاءُ الجَحِيمِ وَوَسَطُ الجَحِيمِ»، {لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ} [الصافات: 67]: «يُخْلَطُ طَعَامُهُمْ وَيُسَاطُ بِالحَمِيمِ»، {زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ} [هود: 106]: «صَوْتٌ شَدِيدٌ، وَصَوْتٌ ضَعِيفٌ»، {وِرْدًا} [مريم: 86]: «عِطَاشًا»، {غَيًّا} [مريم: 59]: «خُسْرَانًا» وَقَالَ مُجَاهِدٌ {يُسْجَرُونَ} [غافر: 72]: «تُوقَدُ بِهِمُ النَّارُ»، {وَنُحَاسٌ} [الرحمن: 35]: «الصُّفْرُ، يُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ». يُقَالُ {ذُوقُوا} [آل عمران: 181]: «بَاشِرُوا وَجَرِّبُوا، وَلَيْسَ هَذَا مِنْ ذَوْقِ الفَمِ»، {مَارِجٌ} [الرحمن: 15]: «خَالِصٌ مِنَ النَّارِ، مَرَجَ الأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ إِذَا خَلَّاهُمْ يَعْدُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ»، {مَرِيجٍ} [ق: 5]: «مُلْتَبِسٍ، مَرِجَ أَمْرُ النَّاسِ اخْتَلَطَ»، {مَرَجَ البَحْرَيْنِ} [الفرقان: 53]: «مَرَجْتَ دَابَّتَكَ تَرَكْتَهَا»

3267. حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ قِيلَ لِأُسَامَةَ لَوْ أَتَيْتَ فُلاَنًا فَكَلَّمْتَهُ، قَالَ: إِنَّكُمْ لَتُرَوْنَ أَنِّي لاَ أُكَلِّمُهُ إِلَّا أُسْمِعُكُمْ، إِنِّي أُكَلِّمُهُ فِي السِّرِّ دُونَ أَنْ أَفْتَحَ بَابًا لاَ أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ، وَلاَ أَقُولُ لِرَجُلٍ أَنْ كَانَ عَلَيَّ أَمِيرًا إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ، بَعْدَ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَمَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ: قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ القِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ، فَيَدُورُ كَمَا يَدُورُ الحِمَارُ بِرَحَاهُ، فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلاَنُ مَا شَأْنُكَ؟ أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَانَا عَنِ المُنْكَرِ؟ قَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلاَ آتِيهِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ المُنْكَرِ وَآتِيهِ رَوَاهُ غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

سورۃ نباءمیں جو لفظ غساقا آیا ہے اس کا معنی پیپ لہو ، عرب لوگ کہتے ہیں غسقت عینہ اس کی آنکھ بہہ رہی ہے ۔ یغسق الجرح زخم بہہ رہا ہے ۔ غساق اور غسیق دونوں کے ایک ہی معنی ہیں ۔ غِسلیِن کا لفط جو سورۃ حاقہ میں ہے اس کا معنی دھوون یعنی کسی چیز کے دھونے میں جیسے آدمی کا زخم ہو یا اونٹ کا جو نکلے فِعلِین کے وزن پر غسل سے مشتق ہے ۔ عکرمہ نے کہا حصب کا لفظ جو سورۃ انبیاء میں ہے معنی حطب یعنی ایندھن کے ہیں ۔ یہ لفظ حبشی زبان کا ہے ۔ دوسروں نے کہا ، حاصبا کا معنی جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے تند ہوا ، آندھی اور حاصب اس کو بھی کہتے ہیں جو ہوا اڑا کر لائے ۔ اسی سے لفظ حصب جہنم نکلا ہے جو سورۃ انبیاءمیں ہے ۔ یعنی دوزخ میں جھونکے جائیں گے وہ اس کے ایندھن بنیں گے ۔ عرب لوگ کہتے ہیں حصب فی الارض یعنی وہ زمین میں چلاگیا ۔ حصب حصباء سے نکلا ہے ۔ یعنی پتھریلی کنکریاں ۔ صدید کا لفظ جو سورۃ ابراہیم میں ہے اس کا معنی پیپ اور لہو کے ہیں ۔ خبت کا لفظ جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اس کا معنی بجھ جائے گی ۔ تورون کا لفظ جو سورۃ واقعہ میں ہے اس کا معنی آگ سلگاتے ہو ، کہتے ہیں اَرُویت یعنی میں نے آگ سلگائی ۔ مقوین کا لفظ جو سورۃ واقعہ میں ہے یہ لفظ قی سے نکلا ہے قی اجاڑ زمین کو کہتے ہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سواء الجحیم کی تفسیر میں کہا جو سورۃ صافات میں ہے دوزخ کا بیچوں بیچ کا حصہ ، لشوبامن حمیم ( جو اسی سورۃ میں ہے ) اس کا معنی یہ ہے کہ دوزخیوں کے کھانے میں گرم کھولتا ہوا پانی ملایا جائے گا ۔ الفاظ زفیر اور شہیق جو سورۃ ہود میں ہیں ان کے معنی آواز سے رونا اور آہستہ سے رونا ، لفظ وردا جو سورۃ مریم میں ہے یعنی پیاسے ، لفظ غیا جو اسی سورۃ میں ہے ۔ یعنی ٹوٹا نقصان ، اورمجاہد نے کہا لفظ یسجرون جو سورۃ مؤمن میں ہے ، یعنی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ لفظ نحاس جو سورۃ رحمن میں ہے اس کا معنی تانبا جو پگھلا کر ان کے سروں پر ڈالا جائے گا ۔ لفظ ذوقوا جو کئی سورتوں میں آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ عذاب کو دیکھو ، منھ سے چکھنا مراد نہیں ہے ۔ لفظ ماٰرج جو سورۃ رحمن میں ہے یعنی خالص آگ ۔ عرب لوگ کہتے ہیں ، مرج الامیر رعیتہ یعنی بادشاہ اپنی رعیت کو چھوڑ بیٹھا ، وہ ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں ۔ لفظ مریج جو سورۃ ق میں ہے ، یعنی ملا ہوا ، مشتبہ ۔ کہتے ہیں مرج امرالناس اختلط یعنی لوگوں کا معاملہ سب خلط ملط ہوگیا ۔ لفظ مرج البحرین جو سورۃ رحمن میں ہے مرجت دابتک سے نکلا ہے ، یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا ہے ۔

3267.

حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے، ان سے کہا گیا : اگر آپ فلاں (حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس جائیں اور ان سے بات کریں۔ اس پر حضرت اسامہ ؓنے کہا: تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے تمھارے سامنے ہی گفتگو کروں گا۔ میں ان سے تنہائی میں بات کرتا ہوں تاکہ کسی قسم کے فساد کا دروازہ نہ کھلے۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ سب سے پہلے میں ہی فتنے کا دروازہ کھولوں۔ میں رسول اللہ ﷺ سےایک حدیث سننے کے بعد یہ بھی نہیں کہتا کہ جو شخص میرا حاکم ہے وہ سب لوگوں سے بہتر ہے۔ لوگوں نے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ حضرت اسامہؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو دوزخ میں اس کی انتڑیاں نکل پڑیں گی اور وہ اس طرح گھومتا پھرے گا جس طرح گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے۔ پھر اہل جہنم اس کے پاس جمع ہو کر کہیں گے۔ ’’اے فلاں ! تیرا کیا حال ہے؟کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم نہ دیتا تھا اور برے کاموں سے نہ روکتا تھا؟ وہ جواب دےگا۔ ہاں میں تمھیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا مگرخود ان پر عمل نہیں کرتا تھا اور تمھیں برے کاموں سے روکتا تھا مگر خود ان کا مرتکب ہوتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو غندر نے شعبہ سے اور انھوں نے اعمش سے بیا ن کیا ہے۔