تشریح:
1۔ حجش کی تین صاحبزادیاں تھیں: حضرت ام المومنین زینب ؒ ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ زوجہ عبدالرحمان بن عوف اور حضرت حمنہ ؓ اور یہ تینوں استحاضے میں مبتلا تھیں۔ علماء نے ان عورتوں کی تعداد دس لکھی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مستحاضہ تھیں۔ سنن ابوداود میں حضرت ام حبیبہ ؓ کے متعلق الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ختنہ (سالی) اور عبدالرحمان بن عوف کی بیوی تھی۔ ختن کا لفظ زوجہ کے اقارب کے لیے، احماء خاوند کے رشتہ داروں کے لیے اوراصہار دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 2۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ سات سال تک مرض استحاضہ میں مبتلارہیں۔ اس سے ابن قاسم نے استدلال کیا ہے کہ اگرمستحاضہ، حیض کے دھوکے میں نماز ترک کردے تو اس کے ذمے قضا نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اتنی بڑی مدت کی نمازیں لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیاہے کہ سات سال کی مدت کا ذکر توضرور ہوا ہے، مگراس بات کا کیا ثبوت ہے کہ مسئلہ پوچھنے کے وقت سے پہلے یہ مدت گزرچکی تھی۔ (فتح الباری:553/1) صحابیات کے دینی لگاؤ اور عبادات کے اہتمام کے پیش نظر یہ اغلب ہے کہ انھیں استحاضے کا عارضہ لاحق ہوتے ہی مسئلے کی ضرورت پڑی اور اسی وقت دریافت کرلیا ہوگا اس لیے ترک نماز اور اس کی قضا کو ادا کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی ہوگی۔3۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ بنت جحش ہر نماز کے وقت غسل کیا کرتی تھیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے مطلق طور پر غسل کا حکم دیا تھا، اس میں بار بار ہرنماز کے لیے غسل کرنے کے متعلق کوئی دلالت نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے کسی قرینے سے ہرنماز کے وقت غسل کا حکم سمجھ لیا ہو۔ امام شافعی ؒ نے فرمایا ککہ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے کوئی حکم نہیں دیا تھا مگرانھوں نے خود ہی ہرنماز کے لیے غسل کرنے کاالتزام کرلیا۔ جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ متحیرہ کے علاوہ کسی مستحاضہ پر ہر نماز کے وقت غسل ضروری نہیں۔ البتہ وضو کرنا ہر نماز کے لیے ضروری ہے۔ ہاں سنن ابی داود میں سلمان بن کثیر اور یحییٰ بن ابی کثیر(292۔293) کی روایات میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم ہے، لیکن ان دونوں روایات کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بشرط صحت دونوں قسم کی روایات میں یہ تطبیق دی جاسکتی ہے کہ حکم غسل کو استحباب پر محمول کیاجائے۔ امام طحاوی ؒ نے حدیث ام حبیبہ ؓ کو حدیث فاطمہ بنت ابی حبیش سے منسوخ قراردیا ہے جس میں صرف وضوکا حکم ہے، غسل کا نہیں، تاہم ہمارے نزدیک دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق پیداکرنا ہی بہتر ہے، یعنی ام حبیبہ ؓ کی حدیث میں غسل کے متعلق امر نبوی کو استحباب وارشاد پرمحمول کیاجائے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:554/1)