قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ ذِكْرِ الجِنِّ وَثَوَابِهِمْ وَعِقَابِهِمْ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ {يَا مَعْشَرَ الجِنِّ وَالإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي} [الأنعام: 130]- إِلَى قَوْلِهِ - {عَمَّا يَعْمَلُونَ} [البقرة: 144] {بَخْسًا} [الجن: 13]: «نَقْصًا» قَالَ مُجَاهِدٌ: {وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجِنَّةِ نَسَبًا} [الصافات: 158] قَالَ: " كُفَّارُ قُرَيْشٍ: المَلاَئِكَةُ بَنَاتُ اللَّهِ، وَأُمَّهَاتُهُنَّ بَنَاتُ سَرَوَاتِ الجِنِّ "، قَالَ اللَّهُ: {وَلَقَدْ عَلِمَتِ الجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ} [الصافات: 158]: «سَتُحْضَرُ لِلْحِسَابِ»، {جُنْدٌ مُحْضَرُونَ} [يس: 75]: «عِنْدَ [ص:127] الحِسَابِ»

3296. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ: إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ وَبَادِيَتِكَ، فَأَذَّنْتَ بِالصَّلاَةِ، فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ «لاَ يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ المُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ القِيَامَةِ» قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کیوں کہ اللہ نے ( سورۃ انعام میں ) فرمایا ، اے جنو اور آدمیو ! کیا تمہارے پاس تمہارے ہی میں سے رسول نہیں آئے ؟ جو میری آیتیں تم کو سناتے رہے آخر تک ۔ ( قرآن مجید میں سورۃ جن میں ) بخسا بمعنی نقصان کے ہے ۔ مجاہد نے کہا سورۃ الصافات میں جو یہ ہے کہ کافروں نے پروردگار اور جنات میں ناتا ٹھہرایا ہے ، قریش کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا ، جن جانتے ہیں کہ ان کافروں کو حساب کتاب دینے کے لیے حاضر ہونا پڑے گا ( سورۃ ےٰسٓ میں جو یہ ہے ) ﴾ولہم جند محضرون﴿ یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے ۔تشریح : نیچریوں اور دہریوں نے جہاں فرشتوں اور شیطان کا انکار کیا ہے، وہاں جنوں کا بھی انکار کیا ہے۔ قسطلانی نے کہا جنوں کا وجود قرآن مجید اور حدیث اور اجماع امت اور تواتر سے ثابت ہے اور فلاسفہ اور نیچریوں کا انکار قابل اعتبار نہیں۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے کہا، اللہ پاک نے آدم سے دو ہزار برس پہلے جنوں کو پیدا فرمایا تھا۔ ( وحیدی )

3296.

حضرت عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو صعصعہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری  ؓنے ان سےکہا: میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تمھیں جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے، اسلیے جب کبھی تم اپنی بکریوں کے ساتھ جنگل میں ہوا کرو تو نمازکے لیے اذان کہہ لیاکرو۔ اور اذان دیتے وقت اپنی آواز کو خوب بلندکیا کرو کیونکہ موذن کی آواز کو جو بھی انسان، جن یا اور کوئی چیز سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔