تشریح:
1۔ اس حدیث میں مؤذن کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔ اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا۔ پھر اس حدیث میں ان کی گواہی کاذکر ہے اورگواہی اچھے عمل کی دی جاتی ہے۔ اورگواہی بھی وہ دیتا ہے جو قابل اعتماد ہو۔ اس سے ان کے اچھے ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ شیطان کے متعلق تو پہلے ذکر ہواہے کہ وہ اذان کی آواز سن کر پادتا ہوا بھاگ جاتاہے۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے ان کے وجود اور ان کے اچھے ہونے کاذکر ملتا ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ جنوں نے کہا:﴿وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا﴾ ’’ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس سے کم درجہ کے ہیں اور ہم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔‘‘ (الجن 14/72، 15) اس آیت کریمہ سے بھی ان کے ثواب عقاب کا پتہ چلتا ہے۔ واللہ أعلم۔