تشریح:
1۔ اس حدیث میں انسان سے اللہ تعالیٰ کے ایک مطالبے کا ذکر ہے جبکہ وہ ابھی آدم ؑ کی پشت میں تھا۔ عنوان سے اسی قدر مطابقت ہے کہ اولاد آدم کی تخلیق کے وقت ہی اسے کہا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا کیونکہ یہ ناقابل معانی جرم ہے اور شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾ ’’اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا۔اور اس کے علاوہ جسے چاہے جو چاہے معاف کر دے۔‘‘ (النساء:48) 2۔آدم کی پشت میں انسان سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا اس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا﴾ ’’اور جب تمھارے رب نے بنی آدم علیہ السلام کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا اور انھیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا :کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟انھوں نے کہا: ضرور!تو ہی ہمارا رب ہے ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔‘‘ (الاعراف:172)بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی بھی صورت میں کوئی شریک نہ بنائے کیونکہ مشرک پر جنت حرام ہے۔