تشریح:
1۔ دجال کا لفظ دجل سے ماخوذ ہے جس کے معنی جھوٹی بات کو خوبصورتی سے پیش کرنا ہیں۔ دجال کانام اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بہت بڑا مکار، جھوٹ بولنے والا اور فریب کرنے والا ہوگا۔ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کی خصوصیت کی وجہ یہ ذکر ہوئی ہےکہ وہ پہلے نبی ہیں جنھوں نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایاہے۔ ان سے پہلے تمام انبیاء لوگوں کی تربیت کرتے تھے جس طرح باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ 2۔ دجال کے متعلق بہت سے اوصاف دیگر احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دجال کی ایک آنکھ ختم ہوگی اور دوسری میں عیب ہوگا اسے ہر صورت میں ایک چشم یعنی کانا کہا جاسکتا ہے جبکہ اللہ رب العزت ایسا نہیں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے دجال کو پہلے کچھ کاموں کی طاقت دے گا پھر بعد میں اس کی عاجزی ظاہر کر دے گا۔ ایسی صورت حال خود ظاہر کردے گی کہ وہ رب نہیں۔ چونکہ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے عنوان سے اتنی سی مطابقت کافی ہے۔ واللہ أعلم۔