قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات وشمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ ( بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ:وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ(ھود25) )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3340. حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ، «فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً» وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ القَوْمِ يَوْمَ القِيَامَةِ، هَلْ تَدْرُونَ بِمَ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَتَدْنُو مِنْهُمُ الشَّمْسُ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ: أَلاَ تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِيهِ، إِلَى مَا بَلَغَكُمْ؟ أَلاَ تَنْظُرُونَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ: أَبُوكُمْ آدَمُ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو البَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ المَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، وَأَسْكَنَكَ الجَنَّةَ، أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ وَمَا بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلاَ يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، أَمَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلاَ تَرَى إِلَى مَا بَلَغَنَا، أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ اليَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلاَ يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، نَفْسِي نَفْسِي، ائْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ العَرْشِ، فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ: لاَ أَحْفَظُ سَائِرَهُ

مترجم:

3340.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک دعوت میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو انتہائی پسند تھا۔ آپ اسے اپنے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھانے لگے اور فرمایا: ’’میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس لیے؟ وجہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا، دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا اور ہر پکارنے والا ان کو اپنی آواز سناسکے گا اور سورج ان کے قریب آچکا ہوگا توکچھ لوگ کہیں گے: کیا تم اپنا حال نہیں دیکھتے کہ کیا(غم اور کرب) تمھیں لاحق ہواہے؟ کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہارے رب کے حضور تمہاری سفارش کرسکے؟ تو کچھ کہیں گے: تمہارا باپ آدم ؑ موجود ہے، چنانچہ لوگ ان کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے آدم ؑ! آپ ابو البشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر آپ کے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں اور آپ کو جنت میں ٹھہرایا، کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش نہیں کرتے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہمیں کس قدر مشقت پہنچ رہی ہے؟ وہ فرمائیں گے: آج میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اتنا غضب ناک نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ کبھی بعد میں ہوگا۔ اس نے مجھے درخت کے قریب جانے سے منع فرمایاتھا لیکن مجھ سے نافرمانی ہوگئی۔ اب تو مجھے اپنی جان کی فکر ہے۔ تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ۔ تم حضر ت نوح ؑ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے نوح ؑ! روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کے آپ پہلے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے۔ کیا آپ دیکھتے ہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ ہمیں کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے؟ کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش نہیں کرتے؟ وہ فرمائیں گے: آج میرا رب بہت غضبناک ہے، اتنا پہلےکبھی غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد ہوگا۔ میں تو اپنی جان کی امان چاہتا ہوں، تم نبی کریم ﷺ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ مجھ سے کہا جائے گا! اے محمد ﷺ! سجدے سے اپنا سر اٹھائیں ۔ آپ سفارش کریں اسے قبول کیاجائے گا۔ آپ مانگیں آپ کو دیا جائے گا۔‘‘ (راوی حدیث)محمد بن عبید کہتے ہیں: مجھے پوری حدیث یاد نہیں رہی۔