تشریح:
1۔حضرت ابراہیم ؑ کی خصوصیت یہ تھی کہ انھیں ننگا کرکے آتش نمرود میں ڈالا گیا تھا۔ چونکہ یہ اللہ کے لیے تھا،اس لیے قیامت کے دن تمام لوگوں سے پہلے انھیں لباس پہنایا جائے گا۔ اگرچہ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں، تاہم یہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کے منافی نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن جب میں ہوش میں آؤں گا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کاکنارا پکڑے ہوئے پاؤں گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الخصومات، حدیث:2411) یہ بھی ایک اُصول ہے کہ متکلم اپنے عمومی خطاب میں داخل نہیں ہوتا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ متکلم ہیں، اس لیے مذکورہ حکم سے خارج ہیں۔ 2۔حدیث کے آخر میں جن لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے ان سے غالباً وہ لوگ مراد ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت صدیقی میں مرتد ہوگئے اور حضرت ابوبکر ؓنے ان کے خلاف جہاد کیا تھا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ حضرت عیسیٰ کی بات دہرائیں گے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:’’جب تک میں ان کے اندر رہا ان کا حال دیکھتا رہا،پھر جب تو نے مجھے واپس بلالیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور توتو ساری چیزوں پر شاہد ہے۔ اگر توانھیں سزا دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اوراگر تو انھیں معاف کردے تو بلاشبہ تو ہی غالب اور دانا ہے۔‘‘ (المآئدة:117/5، 118) 4۔ بہرحال اس حدیث سے امام بخاری ؒنے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک جزوی فضیلت کو ثابت کیا ہے۔