صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
2. باب : اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں یہ فرمانا ، اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک ( قوم کو ) جانشین بنانے والا ہوں ۔
باب : اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں یہ فرمانا ، اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک ( قوم کو ) جانشین بنانے والا ہوں ۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: )
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
(خلیفہ کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ ان میں سلسلہ وار ایک کے بعد دوسرے ان کے قائم مقام ہوتے رہیں گے) ابن عباس ؓنے کہا سورۃ الطارق میں جو «لما عليها حافظ» کے الفاظ ہیں، یہاں «لما» «إلا» کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، (سورۃ البلد میں جو) «في كبد» کا لفظ آیا ہے «كبد» کے معنی سختی کے ہیں۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو «ريشا» کا لفظ آیا ہے «رياش» اس کی جمع ہے یعنی مال۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «رياش» اور «ريش» کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو «تمنون» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی «نطفة» کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) «إنه على رجعه لقادر» مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) «كل شىء خلقه» کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے «في أحسن تقويم» یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ «أسفل سافلين إلا من آمن» یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ (سورۃ العصر میں) «في خسر» کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ (فرمایا «الا الذين امنوا») سورۃ والصافات میں «لازب» کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ «ننشئكم في ما لا تعلمون» یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ (سورۃ البقرہ میں) «نسبح بحمدك» یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے «فتلقى آدم من ربه كلمات» » وہ کلمات یہ ہیں «ربنا ظلمنا أنفسنا» اسی سورۃ میں «فأزلهما» کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ (اسی سورۃ میں ہے) «لم يتسنه» یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) «آسن» یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ «مسنون» ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) «حمإ» کا لفظ ہے جو «حمأة» کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ (سورۃ الاعراف میں) لفظ «يخصفان» کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ «سوآتهما» سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «ومتاع إلى حين» میں «حين» سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو «حين» کہتے ہیں۔ «قبيله» سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔حضرت مجتہد مطلق امام بخاری اپنی عادت کے مطابق قرآن شریف کی مختلف صورتوں کے مختلف الفاظ کے معنی یہاں واضح فرمائے ہیں۔ان الفاظ کا ذکر ایسے ایسے مقامات پر آیا ہے جہاں کسی نہ کسی طرح سے اس کتاب الانبیاء سے متعلق کسی نہ کسی طرح مضامین بیان ہوئے ہیں یہاں ان اکثر سورتوں کوبریکٹ میں ہم نے بتلا دیا ہے وہاں وہ الفاظ تلاش کر کے آیات سیاق وسباق سے پورے مطالب کو معلوم کیا جاسکتا ہے ان جملہ آیات اور ان کے مذکورہ بالا الفاظ کی پوری تفصیل طوالت کے خوف سے یہاں ترک کر دی گئی ہے۔اللہ پاک خیریت سے اس پارے کو بھی پورا کرائے کہ وہ ہی مالک مختار ہے المرقوم بتاریخ15شوال 1391ھ ترچناپلی برمکان حاجی محمد ابراہیم صاحب اداماللہ اقبالھم آمین۔
3352.
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا شدہ ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کے اوپر والا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا شروع کردو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی، لہذا عورتوں کے متعلق بھلائی کی وصیت قبول کرو اور ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔‘‘
تشریح:
1۔ عورتوں کی تخلیق میں ٹیڑھا پن ہے لہٰذا اسی حالت میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور انھیں اپنے مزاج کے مطابق سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اصلی مزاج کے اعتبار سے تمھارےخیالات سے اتفاق نہ کریں اور جھگڑے تک نوبت پہنچ جائے تو ان میں جدائی کا باعث بن جائے چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:’’اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے اوراس کا ٹوٹنا یہ ہے کہ اسے طلاق ہو جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم، الرضاع، حدیث:3643(715) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا پن اس کے اوپر والے حصے یعنی زبان میں ہے یہ زبان سےاپنے ٹیڑھے پن کا اظہارکرے گی۔ نیز عورت زبان کے متعلق اصلاحی تربیت قبول کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات معاملہ پہلے سے زیادہ تیز ہو جاتا ہے لہٰذا اس کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنا چاہیے اسی میں خیرو برکت ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ کہ عورت کا ضرورت سے زیادہ خاموش رہنا اور شہادت حق کے وقت اپنی زبان پر مہرسکوت لگالینا بھی اس ٹیڑھے پن کے برگ و بار ہیں۔ زبان کے متعلق اس قسم کے افراط وتفریط کا اکثر عورتیں ہی شکارہوتی ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3202
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3331
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3331
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3331
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
(خلیفہ کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ ان میں سلسلہ وار ایک کے بعد دوسرے ان کے قائم مقام ہوتے رہیں گے) ابن عباس ؓنے کہا سورۃ الطارق میں جو «لما عليها حافظ» کے الفاظ ہیں، یہاں «لما» «إلا» کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، (سورۃ البلد میں جو) «في كبد» کا لفظ آیا ہے «كبد» کے معنی سختی کے ہیں۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو «ريشا» کا لفظ آیا ہے «رياش» اس کی جمع ہے یعنی مال۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «رياش» اور «ريش» کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو «تمنون» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی «نطفة» کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) «إنه على رجعه لقادر» مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) «كل شىء خلقه» کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے «في أحسن تقويم» یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ «أسفل سافلين إلا من آمن» یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ (سورۃ العصر میں) «في خسر» کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ (فرمایا «الا الذين امنوا») سورۃ والصافات میں «لازب» کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ «ننشئكم في ما لا تعلمون» یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ (سورۃ البقرہ میں) «نسبح بحمدك» یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے «فتلقى آدم من ربه كلمات» » وہ کلمات یہ ہیں «ربنا ظلمنا أنفسنا» اسی سورۃ میں «فأزلهما» کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ (اسی سورۃ میں ہے) «لم يتسنه» یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) «آسن» یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ «مسنون» ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) «حمإ» کا لفظ ہے جو «حمأة» کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ (سورۃ الاعراف میں) لفظ «يخصفان» کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ «سوآتهما» سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «ومتاع إلى حين» میں «حين» سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو «حين» کہتے ہیں۔ «قبيله» سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔حضرت مجتہد مطلق امام بخاری اپنی عادت کے مطابق قرآن شریف کی مختلف صورتوں کے مختلف الفاظ کے معنی یہاں واضح فرمائے ہیں۔ان الفاظ کا ذکر ایسے ایسے مقامات پر آیا ہے جہاں کسی نہ کسی طرح سے اس کتاب الانبیاء سے متعلق کسی نہ کسی طرح مضامین بیان ہوئے ہیں یہاں ان اکثر سورتوں کوبریکٹ میں ہم نے بتلا دیا ہے وہاں وہ الفاظ تلاش کر کے آیات سیاق وسباق سے پورے مطالب کو معلوم کیا جاسکتا ہے ان جملہ آیات اور ان کے مذکورہ بالا الفاظ کی پوری تفصیل طوالت کے خوف سے یہاں ترک کر دی گئی ہے۔اللہ پاک خیریت سے اس پارے کو بھی پورا کرائے کہ وہ ہی مالک مختار ہے المرقوم بتاریخ15شوال 1391ھ ترچناپلی برمکان حاجی محمد ابراہیم صاحب اداماللہ اقبالھم آمین۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا شدہ ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کے اوپر والا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا شروع کردو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی، لہذا عورتوں کے متعلق بھلائی کی وصیت قبول کرو اور ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ عورتوں کی تخلیق میں ٹیڑھا پن ہے لہٰذا اسی حالت میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور انھیں اپنے مزاج کے مطابق سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اصلی مزاج کے اعتبار سے تمھارےخیالات سے اتفاق نہ کریں اور جھگڑے تک نوبت پہنچ جائے تو ان میں جدائی کا باعث بن جائے چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:’’اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے اوراس کا ٹوٹنا یہ ہے کہ اسے طلاق ہو جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم، الرضاع، حدیث:3643(715) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا پن اس کے اوپر والے حصے یعنی زبان میں ہے یہ زبان سےاپنے ٹیڑھے پن کا اظہارکرے گی۔ نیز عورت زبان کے متعلق اصلاحی تربیت قبول کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات معاملہ پہلے سے زیادہ تیز ہو جاتا ہے لہٰذا اس کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنا چاہیے اسی میں خیرو برکت ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ کہ عورت کا ضرورت سے زیادہ خاموش رہنا اور شہادت حق کے وقت اپنی زبان پر مہرسکوت لگالینا بھی اس ٹیڑھے پن کے برگ و بار ہیں۔ زبان کے متعلق اس قسم کے افراط وتفریط کا اکثر عورتیں ہی شکارہوتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
صَلْصَـٰلٍ کے معنی ایسی مٹی کے ہیں جس میں ریت ملی ہوئی ہو اور وہ اس طرح بجنے لگے جیسے پختہ مٹی بجتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی ہیں خمیر کی ہوئی بدبودار مٹی۔ اصل میں یہ لفظ صل سے ماخوذ ہے، جیسےصر صر‘صر سے بناہے۔ کہاجاتا ہے: صر الباب و صر صر عند الاغلاق دروازے نے بند ہوتے وقت آواز دی"یعنی صل اور صلصل اور ہم معنی ہیں جیسا کہ كبكبته اور كببته کے ایک معنی ہیں، یعنی میں نے اسے اوندھا کردیا فَمَرَّتْ بِهِ کےمعنی ہیں: چلتی پھرتی رہی اورحمل کی مدت پوری کی، نیز لَا تَسْجُدُوا۟ کے معنیان تسجد ہیں۔ یعنی تجھے آدم کو سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا؟(لا کالفظ یہاں زائد ہے) اورارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ "حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ میں لما‘الا کے معنی میں ہے، یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقررہے۔ فِى كَبَدٍ اس کے معنی ہیں: شدت خلق۔ رياشاابن عباسؓ کے نزدیک اس کے معنی مال کے ہیں۔ دوسروں نے کہا ہے: رياش اور ريش کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ظاہری لباس مَّا تُمْنُونَ اس کے معنی ہیں: وہ نطفہ جو تم(جماع کرکے) عورتوں کے رحم میں ڈالتے ہو۔ عَلَىٰ رَجْعِهِۦ لَقَادِرٌمجاہد نے کہا: اللہ تعالیٰ نطفے کوآلہ تناسل میں واپس کرنے پر قادر ہے۔ (دوسرے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ وَٱلشَّفْعِ ہر چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑا جوڑا پیداکیاہے جیسا کہ آسمان جوڑا ہے زمین کے لیے اور وَٱلْوَتْرِ وتر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيم ٍاس سے مراد اچھی خلقت ہے أَسْفَلَ سَـٰفِلِينَ پھر انسان کو ہم نے پست سے پست تر بنادیا، یعنی دوزخ میں دھکیل دیا مگر جو ایمان لایا۔ خُسْرٍتمام انسان خسارے میں ہیں، پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا لَّازِبٍ چمٹی ہوئی لیس دار مٹی نُنشِئَكُمْ جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کوبنادیں نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ہم تیری تعظیم اور بڑائی بجالاتے ہیں۔
ابوالعالیہ نے کہا: فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَـٰتٍ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے، وہ کلمات یہ ہیں رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا ‘فَأَزَلَّهُمَاکے معنی ہیں: اسْتَزَلَّهُمُیعنی انھیں پھسلا دیا لَمْ يَتَسَنَّهْ وہ بدبودار نہیں ہوا۔ ءَاسِنٍ اس کے معنی تغیر ہیں۔ مَّسْنُونٍ بدبودار مٹی حَمَإٍ یہ حماة کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں متغیر مٹی يَخْصِفَانِ وہ چپکانے لگے مِن وَرَقِ ٱلْجَنَّةِ ۚ دونوں نے جنت کے پتوں کو جوڑنا شروع کردیا اور ایک پردوسرا رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ سَوْءَٰتُهُمَا یہ شرمگاہ سے کنایہ ہے وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ حِينٍ سے مرد یہاں قیامت تک ہے اور عرب لوگ لفظ حِينٍ کو ایک گھڑی اور لمحے سے لے کر بے انتہا مدت تک استعمال کرتے ہیں۔ وَقَبِيلُهُۥ سے مراد اس کی جماعت ہے جس میں وہ خود شامل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوکریب اور موسیٰ بن حزام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین بن علی نے بیان کیا، ان سے زائدہ نے، ان سے میسرہ اشجعی نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتاہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑدے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah 's Apostle (ﷺ) said, "Treat women nicely, for a women is created from a rib, and the most curved portion of the rib is its upper portion, so, if you should try to straighten it, it will break, but if you leave it as it is, it will remain crooked. So treat women nicely."