Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: Souls are like recruited troops)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3357.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تمام ارواح مجتمع لشکر تھیں، جس جس نے ایک دوسرے کو پہچانا وہ دنیا میں ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں اور جس جس روح نے وہاں ایک دوسرے کی پہچان نہ کی وہ یہاں ایک دوسرے سے بیگانہ رہتی ہیں۔‘‘ یحییٰ بن ایوب نے اس حدیث کو بیان کرتے وقت یحییٰ بن سعید سے سماع کی تصریح کی ہے۔
تشریح:
1۔ اس حدیث کا سبب ورودبیان ہوا ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک خوش طبع عورت تھی جب وہ مدینہ طیبہ آئی تو اس نے ایک ہنس مکھ عورت کے ہاں قیام کیا۔جب حضرت عائشہ ؓ کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے فرمایا:’’میرے محبوب نے سچ فرمایا تھا۔اس کے بعد انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔‘‘(مسند أبي یعلیٰ7/344، طبع درالمامون للتراث دمشق) 2۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب روحوں کو پیدا کیا گیا تو وہ ایک دوسرے کے سامنے ائیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں۔ یا انھوں نے نفرت کا اظہار کیا۔ جب یہی روحیں جسموں سے مرکب ہوئیں تو ابتدائی خلقت کے اعتبار سے آپس میں محبت یا نفرت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ نیک آدمی نیکوں کو پسندکرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور شریر انسان بروں سے محبت کرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ روحوں کی ابتدا جسموں سے پہلے ہے۔ 4۔کتاب الانبیاء سے اس عنوان کی مناسبت یہ ہے کہ حضرات انبیاء ؑ اور ان کے متبعین میں مناسبت قدیمہ ہے۔ اسی قدیمی اور پرانی آشنائی کی وجہ سے یہ لوگ اپنے انبیاء ؑ سے مانوس ہوتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3207
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3336
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3336
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3336
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ اس عنوان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ آدم اور اس کی اولاد بدن اور روح سے مرکب ہے۔ اس طرح یہ عنوان سابق ہی سے متعلق ہے۔(فتح الباری:6/446)
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تمام ارواح مجتمع لشکر تھیں، جس جس نے ایک دوسرے کو پہچانا وہ دنیا میں ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں اور جس جس روح نے وہاں ایک دوسرے کی پہچان نہ کی وہ یہاں ایک دوسرے سے بیگانہ رہتی ہیں۔‘‘ یحییٰ بن ایوب نے اس حدیث کو بیان کرتے وقت یحییٰ بن سعید سے سماع کی تصریح کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کا سبب ورودبیان ہوا ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک خوش طبع عورت تھی جب وہ مدینہ طیبہ آئی تو اس نے ایک ہنس مکھ عورت کے ہاں قیام کیا۔جب حضرت عائشہ ؓ کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے فرمایا:’’میرے محبوب نے سچ فرمایا تھا۔اس کے بعد انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔‘‘(مسند أبي یعلیٰ7/344، طبع درالمامون للتراث دمشق) 2۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب روحوں کو پیدا کیا گیا تو وہ ایک دوسرے کے سامنے ائیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں۔ یا انھوں نے نفرت کا اظہار کیا۔ جب یہی روحیں جسموں سے مرکب ہوئیں تو ابتدائی خلقت کے اعتبار سے آپس میں محبت یا نفرت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ نیک آدمی نیکوں کو پسندکرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور شریر انسان بروں سے محبت کرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ روحوں کی ابتدا جسموں سے پہلے ہے۔ 4۔کتاب الانبیاء سے اس عنوان کی مناسبت یہ ہے کہ حضرات انبیاء ؑ اور ان کے متبعین میں مناسبت قدیمہ ہے۔ اسی قدیمی اور پرانی آشنائی کی وجہ سے یہ لوگ اپنے انبیاء ؑ سے مانوس ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام بخاری نے کہا کہ لیث بن سعد نے روایت کیا یحییٰ بن سعید انصاری سے، ان سے عمرہ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں اور یحییٰ بن ایوب نے بھی اس حدیث کو روایت کیا، کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، آخر تک۔
حدیث حاشیہ:
کتاب الانبیاء کے شروع میں حضرت آدم ؑ کا ذکر ہوا۔ اس سلسلے میں مناسب تھا کہ آدمیت کے کچھ نیک و بد خصائل، اس کی فطرت پر روشنی ڈالی جائے، تاکہ آدمی کی فطرت پڑھنے والوں کے سامنے آسکے۔ اس لیے حضرت امام ؒ ان احادیث مذکورہ کو یہاں لائے۔ اب حدیث آدم ؑکے بعد حضرت نوح ؑ کا ذکر خیر شروع ہوتا ہے جن کو قرآن میں میں عبدشکور کے نام سے پکاراگیا ہے، آپ رقت قلب سے بکثرت رویا کرتے تھے، اسی لیے لفظ نوح سے مشہور ہوگئے۔ واللہ أعلم۔ روحیں عالم ازل میں لشکروں کی طرح یکجا تھیں جن روحوں میں وہاں باہمی تعارف ہوگیا ان سے دنیا میں بھی کسی نہ کسی دن ملاپ ہوہی جاتا ہے اور جن میں باہمی تعارف نہ ہوسکا وہ دنیا میں بھی باہمی طور پر میل نہیں کھاتی ہیں۔ اس کے تحت ہمارے محترم مولانا وحیدالزماں صاحب مرحوم نے شرح وحیدی میں ایک مفصل نوٹ تحریر فرمایا ہے جو قارئین کرام کے لیے دلچسپی کا موجب ہوگا۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’بغیر مناسبت روحانی کے محبت ہو ہی نہیں سکتی، ایک بزرگ کا قول ہے اگر مومن ایسی مجلس میں جائے جہاں سو منافق بیٹھے ہوں اور ایک مومن ہو تو وہ مومن ہی کے پاس بیٹھے گا اور اگر منافق اسی مجلس میں جائے جہاں سو مومن ہوں اور ایک منافق ہو تو اس کی تسلی منافق ہی کے پاس سے ہوگی۔ اسی مضمون میں ایک شاعر نے کہا : کندہم جنس باہم جنس پرواز ، کبوتر باکبوتر باز با باز‘ (وحیدی) دلی دوستی جو خالصاً للہ بلا غرض ہوتی ہے بغیر اتحاد روحانی کے نہیں ہوسکتی۔ ایک بدعتی کبھی کسی موحد متبع سنت کا دوست اور اسی طرح سخت قسم کا مقلد اہل حدیث کا ہوا خواہ نہیں ہوسکتا۔ ایک مجلس میں اتفاق سے ایک مولوی صاحب جو جہمیہ کے ہم مشرب ہیں مجھ سے ملے اور ایک بے عمل جاہل شخص سے کہنے لگے ہم میں اور تم میں الأرواح جنود مجندة اسی حدیث کی رو سے اتحاد ہے میں نے ان کا دل لینے کو کہا کیا ہم کو آپ کے ساتھ یہ اتحاد نہیں ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ مجھ کو ان کی سچائی پر تعجب ہوا۔ واقعی جہمی اور اہل حدیث میں کسی طرح اتحاد نہیں ہوسکتا۔ جس دن سے یہ صحیح بخاری مترجم چھپنا شروع ہوئی ہے کیا کہوں بعض لوگوں کے دل پر سانپ لوٹتا ہے اور حدیث کی کتاب اس عمدگی کے ساتھ طبع ہونے سے دیکھ کر آپ ہی آپ جلے مرتے ہیں۔ اتحاد اور اختلاف روحانی کا اثر اسی سے معلوم کرلینا چاہئے حالانکہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حدیث شریف کی اشاعت ناپسند کرتے ہیں۔ اور ناچیز مترجم پر جھوٹے اتہام دھرکر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ ترجمہ ناتمام رہ جائے۔ ﴿وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾(الصف:8)(وحیدی) حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم نے اپنے زمانے کے حاسدوں کا یہ حال لکھا ہے۔ مگر آج کل بھی معاملہ تقریباً ایسا ہی ہے۔ جو ناچیز (محمد ادؤد راز) کے سامنے آرہا ہے۔ کتنے حاسدین اشاعت بخاری شریف مترجم اردو کا عظیم کام دیکھ کر حسد کی آگ میں جلے جارہے ہیں۔ اللہ پاک ان کے حسدسے محفوظ رکھے اور اس خدمت کو پورا کرائے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
I heard the Prophet (ﷺ), "Souls are like recruited troops: Those who are like qualities are inclined to each other, but those who have dissimilar qualities, differ."