صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
4. باب:حضرت نوحکے بیان میں۔سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد’’ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔‘
باب:حضرت نوحکے بیان میں۔سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد’’ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔‘
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Aza Wajal: "And indeed We sent Nuh to his people...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3361.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک دعوت میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو انتہائی پسند تھا۔ آپ اسے اپنے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھانے لگے اور فرمایا: ’’میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس لیے؟ وجہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا، دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا اور ہر پکارنے والا ان کو اپنی آواز سناسکے گا اور سورج ان کے قریب آچکا ہوگا توکچھ لوگ کہیں گے: کیا تم اپنا حال نہیں دیکھتے کہ کیا(غم اور کرب) تمھیں لاحق ہواہے؟ کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہارے رب کے حضور تمہاری سفارش کرسکے؟ تو کچھ کہیں گے: تمہارا باپ آدم ؑ موجود ہے، چنانچہ لوگ ان کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے آدم ؑ! آپ ابو البشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر آپ کے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں اور آپ کو جنت میں ٹھہرایا، کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش نہیں کرتے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہمیں کس قدر مشقت پہنچ رہی ہے؟ وہ فرمائیں گے: آج میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اتنا غضب ناک نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ کبھی بعد میں ہوگا۔ اس نے مجھے درخت کے قریب جانے سے منع فرمایاتھا لیکن مجھ سے نافرمانی ہوگئی۔ اب تو مجھے اپنی جان کی فکر ہے۔ تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ۔ تم حضر ت نوح ؑ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے نوح ؑ! روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کے آپ پہلے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے۔ کیا آپ دیکھتے ہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ ہمیں کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے؟ کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش نہیں کرتے؟ وہ فرمائیں گے: آج میرا رب بہت غضبناک ہے، اتنا پہلےکبھی غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد ہوگا۔ میں تو اپنی جان کی امان چاہتا ہوں، تم نبی کریم ﷺ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ مجھ سے کہا جائے گا! اے محمد ﷺ! سجدے سے اپنا سر اٹھائیں ۔ آپ سفارش کریں اسے قبول کیاجائے گا۔ آپ مانگیں آپ کو دیا جائے گا۔‘‘ (راوی حدیث)محمد بن عبید کہتے ہیں: مجھے پوری حدیث یاد نہیں رہی۔
تشریح:
1۔ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر تمام کائنات کے سردار ہیں اور قیامت کے دن صرف آپ کی سیادت ظاہر ہوگی۔ تمام انبیاء اور دیگر لوگ آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت نوح ؑ کے متعلق آیا ہے کہ آپ اول الرسل ہیں یعنی اولوالعزم رسولوں میں سے پہلے ہیں جنھیں اللہ کے راستے میں سخت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا نیز حضرت نوح ؑ وہ پہلے رسول ہیں جو اہل ارض کے لیے مبعوث ہوئے تھے حقیقت کے اعتبار سے حضرت آدم ؑ پہلے رسول ہیں لیکن ان کی رسالت صرف اپنی اولاد تک تھی وہ بھی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے تھی اس کے برعکس حضرت نوح ؑ کی رسالت تمام امت کے لیے تھی جو تمام شہروں میں پھیل چکی تھی جبکہ حضرت آدم ؑ کی اولاد صرف ایک شہر تک محدود تھی۔ چونکہ اس روایت میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ان کا تذکرہ متعدد مرتبہ آیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3211
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3340
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3340
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3340
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کا تذکرہ شروع کیا ہے جنھیں قرآن کریم نے عبدشکور کے نام سے یاد کیا ہے۔(بنی اسرائیل:17/3)آپ بہت رقیق القلب تھے ۔اکثر رویا کرتے تھے اس لیے لفظ نوح کے نام سے مشہور ہوئے قرآن مجید نے صراحت کی ہے کہ وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال اپنی قوم کے پاس رہے اور انھیں تبلیغ کرتے رہے۔(العنکبوت29۔14)روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور طوفان کے بعد اپ ساٹھ سال تک زندہ رہے اس طرح آپ کی عمر ایک ہزار پچاس برس بنتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں کیونکہ انھوں نے اللہ کے راستے میں سخت ترین آزمائشوں کو برداشت کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت مختلف سورتوں کے متعدد الفاظ ذکر کیے ہیں جن کا حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی سے تعلق ہے متن میں سورتوں کو آیات کے حوالے سے ذکر کردیا گیا۔ قارئین کرام کسی ترجمے والے قرآن سے ان آیات کا ضرور مطالعہ کریں واللہ المستعان۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک دعوت میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو انتہائی پسند تھا۔ آپ اسے اپنے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھانے لگے اور فرمایا: ’’میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس لیے؟ وجہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا، دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا اور ہر پکارنے والا ان کو اپنی آواز سناسکے گا اور سورج ان کے قریب آچکا ہوگا توکچھ لوگ کہیں گے: کیا تم اپنا حال نہیں دیکھتے کہ کیا(غم اور کرب) تمھیں لاحق ہواہے؟ کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہارے رب کے حضور تمہاری سفارش کرسکے؟ تو کچھ کہیں گے: تمہارا باپ آدم ؑ موجود ہے، چنانچہ لوگ ان کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے آدم ؑ! آپ ابو البشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر آپ کے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں اور آپ کو جنت میں ٹھہرایا، کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش نہیں کرتے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہمیں کس قدر مشقت پہنچ رہی ہے؟ وہ فرمائیں گے: آج میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اتنا غضب ناک نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ کبھی بعد میں ہوگا۔ اس نے مجھے درخت کے قریب جانے سے منع فرمایاتھا لیکن مجھ سے نافرمانی ہوگئی۔ اب تو مجھے اپنی جان کی فکر ہے۔ تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ۔ تم حضر ت نوح ؑ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ حضرت نوح ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے نوح ؑ! روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کے آپ پہلے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے۔ کیا آپ دیکھتے ہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ ہمیں کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے؟ کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش نہیں کرتے؟ وہ فرمائیں گے: آج میرا رب بہت غضبناک ہے، اتنا پہلےکبھی غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد ہوگا۔ میں تو اپنی جان کی امان چاہتا ہوں، تم نبی کریم ﷺ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ مجھ سے کہا جائے گا! اے محمد ﷺ! سجدے سے اپنا سر اٹھائیں ۔ آپ سفارش کریں اسے قبول کیاجائے گا۔ آپ مانگیں آپ کو دیا جائے گا۔‘‘ (راوی حدیث)محمد بن عبید کہتے ہیں: مجھے پوری حدیث یاد نہیں رہی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر تمام کائنات کے سردار ہیں اور قیامت کے دن صرف آپ کی سیادت ظاہر ہوگی۔ تمام انبیاء اور دیگر لوگ آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت نوح ؑ کے متعلق آیا ہے کہ آپ اول الرسل ہیں یعنی اولوالعزم رسولوں میں سے پہلے ہیں جنھیں اللہ کے راستے میں سخت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا نیز حضرت نوح ؑ وہ پہلے رسول ہیں جو اہل ارض کے لیے مبعوث ہوئے تھے حقیقت کے اعتبار سے حضرت آدم ؑ پہلے رسول ہیں لیکن ان کی رسالت صرف اپنی اولاد تک تھی وہ بھی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے تھی اس کے برعکس حضرت نوح ؑ کی رسالت تمام امت کے لیے تھی جو تمام شہروں میں پھیل چکی تھی جبکہ حضرت آدم ؑ کی اولاد صرف ایک شہر تک محدود تھی۔ چونکہ اس روایت میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ان کا تذکرہ متعدد مرتبہ آیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، ہم سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ ﷺ کی خدمت میں دست کا گوشت پیش کیاگیا جو آپ کو بہت مرغوب تھا۔ آپ نے اس دست کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جاسکے گی اور سورج بالکل قریب ہوجائے گا۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہوگا کہ دادا آدم ؑ اس کے لیے مناسب ہیں۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے باوا آدم! آپ انسانوں کے دادا ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو (پیدا کرنے کے بعد) ٹھہرایا تھا۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کردیں۔ آپ خود ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وہ فرمائیں گے کہ (گناہ گاروں پر) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا اور مجھے پہلے ہی درخت (جنت) کے کھانے سے منع کرچکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجالانے میں کوتاہی کرگیا۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے (نفسی نفسی) تم لوگ کسی اور کے پاس جاو۔ ہاں ، نوح ؑ کے پاس جاو۔ چنانچہ سب لوگ نوح ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح ؑ! آپ (آدم ؑ کے بعد) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’عبدشکور‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کردیجئے۔ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد اتنا غضبناک ہوگا۔ آج تو مجھے خود اپنی ہی فکر ہے۔ (نفسی نفسی) تم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جاو چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں (ان کی شفاعت کے لیے) عرش کے نیچے سجدے میں گرپڑوں گا۔ پھر آواز آئے گی، اے محمد! سراٹھاو اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو تمہیں دیا جائے گا۔ محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا کہ ساری حدیث میں یاد نہ رکھ سکا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): We were in the company of the Prophet (ﷺ) at a banquet and a cooked (mutton) forearm was set before him, and he used to like it. He ate a morsel of it and said, "I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know how Allah will gather all the first and the last (people) in one level place where an observer will be able to see (all) of them and they will be able to hear the announcer, and the sun will come near to them. Some People will say: Don't you see, in what condition you are and the state to which you have reached? Why don't you look for a person who can intercede for you with your Lord? Some people will say: Appeal to your father, Adam.' They will go to him and say: 'O Adam! You are the father of all mankind, and Allah created you with His Own Hands, and ordered the angels to prostrate for you, and made you live in Paradise. Will you not intercede for us with your Lord? Don't you see in what (miserable) state we are, and to what condition we have reached?' On that Adam will reply, 'My Lord is so angry as He has never been before and will never be in the future; (besides), He forbade me (to eat from) the tree, but I disobeyed (Him), (I am worried about) myself! Myself! Go to somebody else; go to Noah.' They will go to Noah and say; 'O Noah! You are the first amongst the messengers of Allah to the people of the earth, and Allah named you a thankful slave. Don't you see in what a (miserable) state we are and to what condition we have reached? Will you not intercede for us with your Lord? Noah will reply: 'Today my Lord has become so angry as he had never been before and will never be in the future Myself! Myself! Go to the Prophet (ﷺ) (Muhammad). The people will come to me, and I will prostrate myself underneath Allah's Throne. Then I will be addressed: ' O Muhammad (ﷺ) ! Raise your head; intercede, for your intercession will be accepted, and ask (for anything). for you will be given. "