تشریح:
اس مقام پر ایک مشہور اشکال ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔ (آل عمران:96/3) اور اس کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ نے کی جبکہ مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے درمیان ایک ہزار سے بھی زیادہ سال کا فاصلہ ہے جبکہ اس حدیث میں چالیس سال مذکورہ ہیں۔ دراصل آیت کریمہ اور حدیث مذکور کا یہ مدلول نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ نے ان کو سب سے پہلے بنایا تھا بلکہ انھوں نے تو پہلی بنیادوں کی تجدید کی تھی کیونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ اور بیت المقدس حضرت سلیمان ؑ سے پہلے تعمیر ہو چکے تھے روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے بیت اللہ تعمیر کیا لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے کسی نے اپنی ضرورت کے پیش نظر اس کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر کی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کو سب سے پہلے فرشتوں نے بنایا ہواور ان کی تعمیر میں چالیس سال کا فرق ہو۔ البتہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی طرف نسبت اس لیے کی گئی کہ انھوں نے ان کی تجدید کی تھی۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:495/6)