صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
9. باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو (نبی بناکر) بھیجا انہوں نے کہا‘اے قوم!اللہ کی عبادت کرو‘‘
باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو (نبی بناکر) بھیجا انہوں نے کہا‘اے قوم!اللہ کی عبادت کرو‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And to 'Ad (people, We sent), their brother Hud.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3366.
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھنے سنا ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ ’’کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔‘‘
تشریح:
یہ آیت کریمہ قوم عاد کی ہلاکت کے واقعے کے ضمن میں بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری ؒنے اسی مناسبت سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (18) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ (19) تَنزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ (20) فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (21) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾ ’’قوم عاد نے جھٹلایا پھر میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھا؟ ہم نے ایک منحوس دن میں ان پر سناٹے کی آندھی چھوڑدی جو مسلسل چلی ۔ وہ لوگوں کو یوں اکھاڑ کر پھینک رہی تھی جڑے اکھڑے ہوئے کھجوروں کے تنے ہوں پھر میرا عذاب اورڈرانا کیسا رہا؟ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا پھر کیا ہے کوئی نصیحت ماننے والا۔‘‘ (القمر:18، 22) یہ عذاب ٹھنڈا یخ آندھی کا تھا جو مضبوط قلعوں میں گھس کر لوگوں کو پٹخ پٹخ کر زمین پر مارتی اور ان کی گردن توڑ کر رکھ دیتی تھی۔ أعا ذنااللہ منها۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3216
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3345
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3345
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3345
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ہود علیہ السلام کی سیرت سے سورہ احقاف اور سورہ حاقہ کی آیات ذکر کی ہیں۔ سیاق و سباق کے حوالے سے ان آیات کا ترجمہ یہ ہے۔(ا)"اور ان سے قوم عاد کے بھائی (ہود) کا ذکر کریں جب اس نے احقاف میں اپنی قوم کو ڈرایا جبکہ ان سے پہلے بھی ڈرانے والے آئے اور اس کے بعد بھی آتے رہے۔ انھوں نے کہا: اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ بلا شبہ میں تمھیں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں وہ کہنے لگے۔ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیرو۔؟اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کی ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ لے آؤ۔ ہود نے کہا اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔میں تو تمھیں وہ پیغام پہنچا رہا ہوں جو مجھے دے کربھیجا گیا ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نادان لوگ ہو۔ پھر جب انھوں نے اس بادل کو اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا بلکہ وہ یہ چیز تھی جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یعنی ایسی آندھی جس میں درد ناک عذاب تھا وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تہس نہس کر رہی تھی۔آخر ان کا یہ حال ہوا کہ ان کے گھروں کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیا کرتے ہیں۔"(الاحقاف46۔21۔25)احقاف حقف کی جمع ہے۔ اس کے معنی ریت کے بڑے بڑےٹیلوں کے ہیں۔ یہ علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا جو کسی زمانے میں سرسبز و شاداب خطہ تھا۔قوم عاد نے اس جگہ زمین دوزمکانات بنارکھےتھے یہ علاقہ جنوبی عرب میں حضر موت کے شمال کی طرف واقع ہےاور آج کل وہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جو میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔اسے آج کل ربع خالی کہاجاتا ہے کوئی شخص اس صحرا ء میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتا اور جو چیز اس ریت میں گر پڑے وہ بھی ریت میں دھنس کر ریت ہی بن جاتی ہے۔ اس قوم پر اللہ کا عذاب سخت آندھی کی شکل میں آیا۔اس کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ وہ بڑے بڑے تناور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ کر پرے پھینک دیتی تھی۔ یہی آندھی ان کے زمین دوز مکانوں میں گھس گئی۔اس دوران میں وہ اپنے محلات سے نکل بھی نہیں سکتے تھے سردی کی شدت سے وہیں ٹھٹھر ٹھٹھرکر مرگئے۔تباہی کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی چیز وہاں نظر آتی تھی تو وہ ان کے مکانات تھے جن میں دراڑیں پڑ چکی تھیں جیسا کہ آیات بالا میں ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔(ب)"رہے عاد!تو وہ سناٹے کی سخت آندھی سے ہلاک کیے گئے اللہ تعالیٰ نے اس آندھی کو ان پر متواتر سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلط کیے رکھا۔ آپ(وہاں ہوتے تو)دیکھتے کہ وہاں لوگ یوں (چاروں شانے) چت گرے پڑے ہیں جیسے وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔کیا آپ ان میں سے کسی کو باقی بچا دیکھتے ہیں۔"(الحاقہ:69۔6۔9)واضح رہے کہ قوم ہود پر جو عذاب آیا وہ سخت آندھی کا عذاب تھا۔ ہوانہایت سرد اور اتنی شرکش تھی جس پر کسی مخلوق کا زور نہ چلتا تھا حتی کہ فرشتے جو ہوا کے نظام پر مامور ہیں ان کا بھی اس پر کنٹرول نہیں تھا۔جیسا کہ لفظ عاتیہ سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھنے سنا ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾’’کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہ آیت کریمہ قوم عاد کی ہلاکت کے واقعے کے ضمن میں بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری ؒنے اسی مناسبت سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (18) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ (19) تَنزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ (20) فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (21) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾ ’’قوم عاد نے جھٹلایا پھر میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھا؟ ہم نے ایک منحوس دن میں ان پر سناٹے کی آندھی چھوڑدی جو مسلسل چلی ۔ وہ لوگوں کو یوں اکھاڑ کر پھینک رہی تھی جڑے اکھڑے ہوئے کھجوروں کے تنے ہوں پھر میرا عذاب اورڈرانا کیسا رہا؟ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا پھر کیا ہے کوئی نصیحت ماننے والا۔‘‘ (القمر:18، 22) یہ عذاب ٹھنڈا یخ آندھی کا تھا جو مضبوط قلعوں میں گھس کر لوگوں کو پٹخ پٹخ کر زمین پر مارتی اور ان کی گردن توڑ کر رکھ دیتی تھی۔ أعا ذنااللہ منها۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے ان سے اسود نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ آیت ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ کی تلاوت فرما رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ آیت سورۃ قمر میں قوم عاد کے قصہ میں بھی آئی ہے۔ اس مناسبت سے یہ حدیث بیان کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): I heard the Prophet (ﷺ) reciting: "Fahal Min Muddakir." (See Hadith No. 557)