تشریح:
1۔ اس حدیث میں درود سے مراد دین ودنیا کی وہ برکتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد کو عطا فرمائیں۔ آج بیشتر اقوام عالم کا نسلی تعلق حضرت ابراہیم ؑ سے ملتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہی برکات سیدنا محمد ﷺ کو عطا فرمائی ہیں کہ آپ کا کلمہ پڑھنے والے آج روئے زمین پر لاتعداد موجود ہیں اور روزانہ نماز پنجگانہ کے وقت آپ کی رسالت کا اعلان اس شان سے کیا جاتا ہےکہ دنیا کے تمام پیشوایان مذہب میں اس کی مثال ناممکن ہے۔ 2۔ اس درود میں حضرت ابراہیم ؑ بھی مراد ہیں کیونکہ آل کا لفظ زائد ہے یا ابراہیم ؑ بھی آل میں داخل ہیں یا ابراہیم ؑ بطریق اولیٰ مراد ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ اے اللہ! جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائی ہیں ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پر بطریق اولیٰ اپنی رحمتیں نازل فرما۔ چونکہ حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کی اولاد پر درودمعروف ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ پر رحمتیں نازل کرنے کی تشبیہ سے مراد شہرت کے اعتبار سے ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ ’’اے اہل بہت ! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔‘‘ (ھود:73/11) اس آیت کریمہ میں اہل بیت سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کی آل و اولاد ہے جیسا کہ سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔