قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّيَمُّمِ (بَابُ التَّيَمُّمِ فِي الحَضَرِ، إِذَا لَمْ يَجِدِ المَاءَ، وَخَافَ فَوْتَ الصَّلاَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَبِهِ قَالَ عَطَاءٌ: وَقَالَ الحَسَنُ: «فِي المَرِيضِ عِنْدَهُ المَاءُ، وَلاَ يَجِدُ مَنْ يُنَاوِلُهُ يَتَيَمَّمُ» وَأَقْبَلَ ابْنُ عُمَرَ: «مِنْ أَرْضِهِ بِالْجُرُفِ فَحَضَرَتِ العَصْرُ بِمَرْبَدِ النَّعَمِ [ص:75] فَصَلَّى، ثُمَّ دَخَلَ المَدِينَةَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ فَلَمْ يُعِدْ»

337.  حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَسَارٍ، مَوْلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبِي جُهَيْمِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ الأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ أَبُو الجُهَيْمِ الأَنْصَارِيُّ «أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ فَلَقِيَهُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الجِدَارِ، فَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

جب پانی نہ پائے اور نماز فوت ہونے کا خوف ہو۔ عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی بیمار کے نزدیک پانی ہو جسے وہ اٹھا نہ سکے اور کوئی ایسا شخص بھی وہاں نہ ہو جو اسے وہ پانی ( اٹھا کر ) دے سکے تو وہ تیمم کر لے۔ اور عبداللہ بن عمر جرف کی اپنی زمین سے واپس آ رہے تھے کہ عصر کا وقت مقام مربدالنعم میں آ گیا۔ آپ نے ( تیمم سے ) عصر کی نماز پڑھ لی اور مدینہ پہنچے تو سورج ابھی بلند تھا مگر آپ نے وہ نماز نہیں لوٹائی۔تشریح : حضرت امام قدس سرہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ تیمم بوقت ضرورت سفر میں تو ہے ہی مگر حضر میں بھی اگرپانی نہ مل سکے اور نماز کا وقت نکلا جارہا ہو یا مریض کے پاس کوئی پانی دینے والا نہ ہو توایسی صورت میں تیمم سے نماز ادا کی جا سکتی ہے ارشاد باری لایکلف اللہ نفساً الا وسعہا ( البقرۃ: 286 ) اللہ نے ہر انسان کو اس کی طاقت کے اندر مکلف بنایا ہے۔

337.

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے غلام عمیر کہتے ہیں کہ میں اور نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ‬ ؓ  ک‬ے غلام عبداللہ بن یسار ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ بئر جمل سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک شخص ملا اور اس نے آپ کو سلام کیا لیکن نبی ﷺ نے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ آپ ایک دیوار کے پاس آئے اور اس سے اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کیا، یعنی تیمم فرمایا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔