تشریح:
1۔ اس حدیث میں خاندانی شرافت کے اعتبار سے حضرت یوسف ؑ کو لوگوں میں قابل احترام قراردیا گیا ہے کہ آپ سلسلہ نبوت کا ایک حلقہ ہیں یعنی آپ کے نسب میں مسلسل چار انبیائے کرام ؑ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیاوی حکومت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ 2۔ اس حدیث کے مطابق دین اسلام میں شرافت کی بنیاد دینداری اور دین میں سمجھ حاصل کرنا ہے جسے حدیث میں لفظ فقاہت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ جس بندے کے ساتھ خیر خواہی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:71) اس کی زندہ مثال محدثین کرام کی جماعت ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے دین میں فہم و بصیرت سے نوازا۔ ان کی مساعی جمیلہ سے آج اسلام زندہ ہے اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں سیرت طیبہ کا مکمل طور پر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہم سب کو رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرے اورمحدثین کی جماعت سے اٹھائے۔ آمین۔