مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3391.
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم آپ پر درودکیسے پڑھیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس طرح کہا کرو: اے اللہ! حضرت محمد ﷺ اور ان کی ازواج واولاد پر رحمت نازل فرما، جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد پر رحمت نازل فرمائی تھی۔ اور حضرت محمد ﷺ اور ان کی ازواج و اولاد پر برکت نازل فرما جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلا شبہ توخوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں درود سے مراد دین ودنیا کی وہ برکتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد کو عطا فرمائیں۔ آج بیشتر اقوام عالم کا نسلی تعلق حضرت ابراہیم ؑ سے ملتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہی برکات سیدنا محمد ﷺ کو عطا فرمائی ہیں کہ آپ کا کلمہ پڑھنے والے آج روئے زمین پر لاتعداد موجود ہیں اور روزانہ نماز پنجگانہ کے وقت آپ کی رسالت کا اعلان اس شان سے کیا جاتا ہےکہ دنیا کے تمام پیشوایان مذہب میں اس کی مثال ناممکن ہے۔ 2۔ اس درود میں حضرت ابراہیم ؑ بھی مراد ہیں کیونکہ آل کا لفظ زائد ہے یا ابراہیم ؑ بھی آل میں داخل ہیں یا ابراہیم ؑ بطریق اولیٰ مراد ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ اے اللہ! جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائی ہیں ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پر بطریق اولیٰ اپنی رحمتیں نازل فرما۔ چونکہ حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کی اولاد پر درودمعروف ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ پر رحمتیں نازل کرنے کی تشبیہ سے مراد شہرت کے اعتبار سے ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ ’’اے اہل بہت ! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔‘‘ (ھود:73/11) اس آیت کریمہ میں اہل بیت سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کی آل و اولاد ہے جیسا کہ سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3241
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3369
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3369
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3369
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلقہ احادیث ذکر کی جائیں گی لیکن ان کی نوعیت پہلی احادیث کے اعتبار سے مختلف ہوگی۔یہ عنوان پہلے عنوان کا تتمہ اور تکملہ ہے۔
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم آپ پر درودکیسے پڑھیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس طرح کہا کرو: اے اللہ! حضرت محمد ﷺ اور ان کی ازواج واولاد پر رحمت نازل فرما، جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد پر رحمت نازل فرمائی تھی۔ اور حضرت محمد ﷺ اور ان کی ازواج و اولاد پر برکت نازل فرما جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلا شبہ توخوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں درود سے مراد دین ودنیا کی وہ برکتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد کو عطا فرمائیں۔ آج بیشتر اقوام عالم کا نسلی تعلق حضرت ابراہیم ؑ سے ملتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہی برکات سیدنا محمد ﷺ کو عطا فرمائی ہیں کہ آپ کا کلمہ پڑھنے والے آج روئے زمین پر لاتعداد موجود ہیں اور روزانہ نماز پنجگانہ کے وقت آپ کی رسالت کا اعلان اس شان سے کیا جاتا ہےکہ دنیا کے تمام پیشوایان مذہب میں اس کی مثال ناممکن ہے۔ 2۔ اس درود میں حضرت ابراہیم ؑ بھی مراد ہیں کیونکہ آل کا لفظ زائد ہے یا ابراہیم ؑ بھی آل میں داخل ہیں یا ابراہیم ؑ بطریق اولیٰ مراد ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ اے اللہ! جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائی ہیں ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پر بطریق اولیٰ اپنی رحمتیں نازل فرما۔ چونکہ حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کی اولاد پر درودمعروف ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ پر رحمتیں نازل کرنے کی تشبیہ سے مراد شہرت کے اعتبار سے ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ ’’اے اہل بہت ! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔‘‘ (ھود:73/11) اس آیت کریمہ میں اہل بیت سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کی آل و اولاد ہے جیسا کہ سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبر دی۔ انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم نے‘ انہیں ان کے والد نے‘ انہیں عمروبن سلیم زرقی نے‘ انہوں نے کہا مجھ کو ابو حمید ساعدی ؓ نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو ’’اے اللہ! رحمت نازل فر محمدپر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیساکہ تو نے رحمت نازل کیا ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل کیامحمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تونے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر۔ بے شک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔
حدیث حاشیہ:
آل سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ آپ کے اہل بیت یعنی حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین ؓ ہیں۔ درود سے مراد یہ ہے کہ آپ کی نسل برکت کے ساتھ دنیا میں ہمیشہ باقی رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Humaid As-Sa'idi (RA): The people asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! How shall we (ask Allah to) send blessings on you?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "Say: O Allah! Send Your Mercy on Muhammad and on his wives and on his off spring, as You sent Your Mercy on Abraham's family; and send Your Blessings on Muhammad and on his offspring, as You sent Your Blessings on Abraham's family, for You are the Most Praise-worthy, the Most Glorious."