صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
20. باب:پھر جب آل لوط کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے آئے تو لوط نے کہا کہ تم لوگ تو کسی انجان ملک والے معلوم ہوتے ہو “
باب:پھر جب آل لوط کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے آئے تو لوط نے کہا کہ تم لوگ تو کسی انجان ملک والے معلوم ہوتے ہو “
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: "Then when the messengers came unto the family of Lout...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( سورۃ والذاریات میں ) موسیٰ ؑ کے ذکر میں ” برکنہ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرعون کے ساتھ تھے کیونکہ وہ اس کے قوت بازوتھے ( سورۃ ہود میں ) ولاترکنوا کا معنی مت جھکو ( سورۃ ہود میں ) انکرھم‘ نکرھم اور استنکرھم کا ایک ہی معنی ہے ( سورۃ ہود میں یھرعون کا معنی دوڑتے ہیں ( سورۃ حجر میں ) دابر کے معنی آخر دم ہے ( سورۃ حجر میں ) صیحۃکا معنی ہلاکت ( سورۃ حجر میں ) للمتوسمین کا معنی دیکھنے والوں کے لئے ( سورۃ حجر میں ) لسبیل کا معنی راستے کے ہیں ( یعنی راستے میں )تشریح : باب کے ذیل لفظ برکنہآیا ہے یعنی قوت۔ رکن کے معنی قوت‘ زور۔ یہ لفظ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں واردہوا ہے اورحضرت لوط علیہ السلام کے قصے میں بھی رکن کا لفظ آیا ہے او اوي الي رکن شدي ( ھود: 80 ) اس لئے امام بخاری نے اس کا ذکر کردیاوالتکرھم کا لفظ ان فرشتوں کے باب میں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بطور مہمان آئے تھے۔ مگر چونکہ یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس گئے تھے ‘ اس مناسب کی وجہ سے اس کا بھی ذکر کردیا۔ بعض نے کہا لوط کے قصے میں بھی اِنّکُم قَوم مُّنکَرُونَ ( الحجر:62 ) وارد ہے اور نکرھم ا سی سے ہے۔ صیحۃ لفظ آیت شریفہ فاخذ تھم الصيح مشرقين ( الحجر : 73 ) میں ہے جو حضرت لوط کی امت کے بارے میں ہے۔ نیز آیت میں جویس میں ہے ان کانت الا صيح واحد ( یٰسٓ : 53 ) لفظ صیحۃ مذکور ہے۔
3398.
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا تھا۔
تشریح:
چونکہ یہ آیت کریمہ حضرت لوط ؑ کے واقعے کے بعد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر پتھر برسائے مگر لوط کے گھر والوں کو ہم نے سحری کے وقت بچا کر وہاں سے نکال دیا۔‘‘ (القمر:33/54 ،34) اس واقعے کے آخر میں ہے۔’’پھر کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘(القمر:40/54) اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3248
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3376
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3376
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3376
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
( سورۃ والذاریات میں ) موسیٰ ؑ کے ذکر میں ” برکنہ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرعون کے ساتھ تھے کیونکہ وہ اس کے قوت بازوتھے ( سورۃ ہود میں ) ولاترکنوا کا معنی مت جھکو ( سورۃ ہود میں ) انکرھم‘ نکرھم اور استنکرھم کا ایک ہی معنی ہے ( سورۃ ہود میں یھرعون کا معنی دوڑتے ہیں ( سورۃ حجر میں ) دابر کے معنی آخر دم ہے ( سورۃ حجر میں ) صیحۃکا معنی ہلاکت ( سورۃ حجر میں ) للمتوسمین کا معنی دیکھنے والوں کے لئے ( سورۃ حجر میں ) لسبیل کا معنی راستے کے ہیں ( یعنی راستے میں )تشریح : باب کے ذیل لفظ برکنہآیا ہے یعنی قوت۔ رکن کے معنی قوت‘ زور۔ یہ لفظ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں واردہوا ہے اورحضرت لوط علیہ السلام کے قصے میں بھی رکن کا لفظ آیا ہے او اوي الي رکن شدي ( ھود: 80 ) اس لئے امام بخاری نے اس کا ذکر کردیاوالتکرھم کا لفظ ان فرشتوں کے باب میں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بطور مہمان آئے تھے۔ مگر چونکہ یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس گئے تھے ‘ اس مناسب کی وجہ سے اس کا بھی ذکر کردیا۔ بعض نے کہا لوط کے قصے میں بھی اِنّکُم قَوم مُّنکَرُونَ ( الحجر:62 ) وارد ہے اور نکرھم ا سی سے ہے۔ صیحۃ لفظ آیت شریفہ فاخذ تھم الصيح مشرقين ( الحجر : 73 ) میں ہے جو حضرت لوط کی امت کے بارے میں ہے۔ نیز آیت میں جویس میں ہے ان کانت الا صيح واحد ( یٰسٓ : 53 ) لفظ صیحۃ مذکور ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
چونکہ یہ آیت کریمہ حضرت لوط ؑ کے واقعے کے بعد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر پتھر برسائے مگر لوط کے گھر والوں کو ہم نے سحری کے وقت بچا کر وہاں سے نکال دیا۔‘‘ (القمر:33/54 ،34) اس واقعے کے آخر میں ہے۔’’پھر کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘(القمر:40/54) اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
بِرُكْنِهِ (فرعون)اپنے ساتھیوں سمیت کیونکہ وہ اس کی طاقت تھے تَرْكَنُوا تم جھکواورفانكرهم‘ونكرهم اور استنكرهم کے معنی ایک ہی ہیں، یعنی انھیں اجنبی خیال کیا يُهْرَعُونَ کے معنی ہیں تیزی سے دوڑتے ہوئے دَابِرَ اس کی جڑیا آخری انسان الصَّيْحَةُ ہلاکت خیز دھماکہ۔ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ صاحب بصیرت لوگوں کے لیے لَبِسَبِيلٍ شارع عام۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمود نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو احمد نے بیان کیا‘ ان سے سفیان نے بیان کیا‘ ان سے ابو اسحاق نے‘ ان سے اسود نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾پڑھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہ آیت سورۃ قمر میں حضرت لوط ؑکے قصے میں وارد ہے۔ اس مناسبت سے اس حدیث کو اس باب میں بھی دکر کردیا ہے۔ جیسے پہلے بھی کئی با ر گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) recited:-- 'Hal-min-Muddakir' (54.15) (Is there any that will remember) (and avoid evil).