قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات وشمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ المُفْسِدِينَ. وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ. قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ. قَالَ لَنْ تَرَانِي} [الأعراف: 143]- إِلَى قَوْلِهِ - {وَأَنَا أَوَّلُ المُؤْمِنِينَ} [الأعراف:)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: يُقَالُ: دَكَّهُ: زَلْزَلَهُ {فَدُكَّتَا} [الحاقة: 14]: فَدُكِكْنَ، جَعَلَ الجِبَالَ كَالوَاحِدَةِ، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا}، وَلَمْ يَقُلْ: كُنَّ، رَتْقًا: مُلْتَصِقَتَيْنِ، {أُشْرِبُوا} [البقرة: 93]: ثَوْبٌ مُشَرَّبٌ مَصْبُوغٌ " قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {انْبَجَسَتْ}: انْفَجَرَتْ، {وَإِذْ نَتَقْنَا الجَبَلَ} [الأعراف: 171]: رَفَعْنَا

3398. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «النَّاسُ يَصْعَقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ العَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي أَمْ جُوزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ عرب لوگ بولتے ہیں دكه یعنی اسے ہلا دیا۔ اسی سے ہے (سورۃ الحاقہ میں) فدكتا‏ دكه واحدۃ تثنیہ کا صیغہ اس طرح درست ہوا کہ یہاں پہاڑوں کو ایک چیز فرض کیا اور زمین کو ایک چیز ‘ قاعدے کے موافق یوں ہونا تھا «فدككن» بصیغہ جمع۔ اس کی مثال وہ ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ «أن السموات والأرض كانتا رتقا‏» اور یوں نہیں فرمایا «كن‏.‏ رتقابه» صیغہ جمع (حالانکہ قیاس یہی چاہتا تھا) «رتقا» کے معنی جڑے ہوئے ملے ہوئے۔ «أشربوا‏» (جو سورۃ البقرہ میں ہے) اس «شرب» سے نکلا ہے جو رنگنے کے معنوں میں آتا ہے جیسے عرب لوگ کہتے ہیں «ثوب» «مشرب» یعنی رنگا ہوا کپڑا (سورۃ الاعراف میں) «نتقنا» کا معنی ہم سے اٹھا لیا۔

3398.

حضرت ابو سعید خدری  ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگ بے ہوش ہوں گے اور مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو میں حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پائے کوپکڑے ہوں گے۔ نہ معلوم وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انھیں کوہ طور کی بے ہوشی کابدلہ ملاہوگا؟‘‘