Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And to Thamud (people, We sent) their brother Salih...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
(سورۃ الحجر میں) جو فرمایا ”حجر والوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔“ حجر ثمود والوں کا شہر تھا لیکن (سورۃ الانعام میں) جو حرث حجر آیا ہے وہاں «حجر» کے معنی حرام اور ممنوع کے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حجر محجور» یعنی حرام و ممنوع اور «حجر» عمارت کو بھی کہتے ہیں اور جس زمین کو گھیر لیا جائے (دیوار یا باڑ سے) اسی سے خانہ کعبہ کے حطیم کو «حجر» کہتے ہیں۔ «حجر» «محطوم» سے نکلا ہے «محطوم» کے معنی ٹوٹا ہوا۔ پہلے وہ کعبہ کے اندر تھا اس کو توڑ کر باہر کر دیا اس لیے «محطوم» کہنے لگے) جیسے «قتيل» «مقتول» سے ‘ اور «مادبان» گھوڑی کو بھی۔ «حجر» کے معنی عقل کے بھی ہیں جیسے «حجى.» کے معنی بھی عقل کے ہیں (سورۃ الفجر میں ہے «هل في ذالك قسم لذي حجر») اور «حجر اليمامة» (حجاج اور یمن کے بیچ میں) ایک مقام کا نام ہے۔تشریح:ثمود عرب کا ایک قبیلہ تھا ان کے دادا کا نام ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح تھااس لئے ان کو ثمود کہنے لگے اللہ نے حضرت صالح کو پغمبر بنا کر ان لوگوں کی طرف بھیجا۔قرآن مجید میں ان کا ذکر بکثرت آیا ہے۔
3400.
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب غزوہ تبوک کے موقع پر مقام حجر پر پڑاؤکیا تو مجاہدین کو حکم دیا کہ اس مقام کے کنویں سے پانی نہ پئیں اور نہ پانی بھر کر ہی رکھیں۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ ہم نے اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور مشکیزوں میں پانی بھر لیا ہے تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ وہ آٹا پھینک دیں اور پانی بہادیں۔ سبرہ بن معبد اور ابو شموس سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے کھانا پھینک دینے کا حکم دیا اور حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اس کے پانی سے آٹا گوندھا ہے (وہ اسے پھینک دے)۔
تشریح:
رسول اللہ ﷺ نے مقام حجر کنویں کا پانی پینے سے اس لیے منع کیا کہ وہ منحوس مقام تھا اور وہاں ایک قوم پر عذاب نازل ہوا تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پانی کی وجہ سے لوگ سنگدلی کا شکار ہو جائیں یا جسمانی طور پر کسی بیماری میں مبتلا ہو جائیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3250
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3378
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3378
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3378
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
حجر ایک تو نام اور علم ہے جو قوم ثمود کا مسکن تھا اور ایک حجر عام ہے جس کے معنی ممنوع اور حرام کے ہیں۔ ہر ممنوع چیز محجور اور حجر کہلاتی ہے۔ حطیم کو حجر اس لیے کہا جاتا ہےکہ اسے بیت اللہ سے کاٹ کر الگ کر دیا گیاہے بہر حال اس قوم کا مسکن مدینہ اور شام کے درمیان تھا۔ اور حجر یمامہ وادی القری کے پاس ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قوم ثمود اور ان کے رسول حضرت صالح علیہ السلام کے حالات بیان کرنے کے لیے دو آیات کا انتخاب کیا ہے۔ایک سورہ اعراف آیت 73۔اور دوسری سورہ حجر آیت 80ہے۔متعلقہ آیات کے سیاق وسباق کا مطالعہ کسی ترجمے والے قرآن سے کر لیا جائے قوم عاد کی ہلاکت کے بعد ان کے شہروں میں قوم ثمود آباد ہوئی۔ انھوں نے بلند و بالا اور مضبوط محلات تعمیر کیے۔ جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو انھوں نے پہاڑوں کو کرید کرید کر وہاں مکانات تعمیر کر لیے۔ان کی معاشی حالت بہت اچھی تھی ۔مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے وہ تکبر و غرور میں آگئے زمین میں فساد کرنا شروع کردیا اور بت پرستی میں مبتلا ہو گئے ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا ان کے مطالبے پر اونٹنی بطور معجزہ دی گئی جسے انھوں نے قتل کردیا۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو وہ لوگ صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔
(سورۃ الحجر میں) جو فرمایا ”حجر والوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔“ حجر ثمود والوں کا شہر تھا لیکن (سورۃ الانعام میں) جو حرث حجر آیا ہے وہاں «حجر» کے معنی حرام اور ممنوع کے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حجر محجور» یعنی حرام و ممنوع اور «حجر» عمارت کو بھی کہتے ہیں اور جس زمین کو گھیر لیا جائے (دیوار یا باڑ سے) اسی سے خانہ کعبہ کے حطیم کو «حجر» کہتے ہیں۔ «حجر» «محطوم» سے نکلا ہے «محطوم» کے معنی ٹوٹا ہوا۔ پہلے وہ کعبہ کے اندر تھا اس کو توڑ کر باہر کر دیا اس لیے «محطوم» کہنے لگے) جیسے «قتيل» «مقتول» سے ‘ اور «مادبان» گھوڑی کو بھی۔ «حجر» کے معنی عقل کے بھی ہیں جیسے «حجى.» کے معنی بھی عقل کے ہیں (سورۃ الفجر میں ہے «هل في ذالك قسم لذي حجر») اور «حجر اليمامة» (حجاج اور یمن کے بیچ میں) ایک مقام کا نام ہے۔تشریح:ثمود عرب کا ایک قبیلہ تھا ان کے دادا کا نام ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح تھااس لئے ان کو ثمود کہنے لگے اللہ نے حضرت صالح کو پغمبر بنا کر ان لوگوں کی طرف بھیجا۔قرآن مجید میں ان کا ذکر بکثرت آیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب غزوہ تبوک کے موقع پر مقام حجر پر پڑاؤکیا تو مجاہدین کو حکم دیا کہ اس مقام کے کنویں سے پانی نہ پئیں اور نہ پانی بھر کر ہی رکھیں۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ ہم نے اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور مشکیزوں میں پانی بھر لیا ہے تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ وہ آٹا پھینک دیں اور پانی بہادیں۔ سبرہ بن معبد اور ابو شموس سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے کھانا پھینک دینے کا حکم دیا اور حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اس کے پانی سے آٹا گوندھا ہے (وہ اسے پھینک دے)۔
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے مقام حجر کنویں کا پانی پینے سے اس لیے منع کیا کہ وہ منحوس مقام تھا اور وہاں ایک قوم پر عذاب نازل ہوا تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پانی کی وجہ سے لوگ سنگدلی کا شکار ہو جائیں یا جسمانی طور پر کسی بیماری میں مبتلا ہو جائیں۔
ترجمۃ الباب:
حجر، قوم ثمود کے رہنے کی جگہ کا نام ہے لیکن ایک دوسرے مقام حرث‘ حجرًپر اس کے معنی ممنوع اور حرام کے ہیں۔ ہر ممنوع چیز حجر، یعنی حرام ہوتی ہے۔ اسی سے حِجْرًا مَّحْجُورًا ہے۔ اس کے معنی ہیں۔ رکاوٹ جو کھڑی کی گئی ہو۔ حجر، ہراس عمارت کو کہتے ہیں جس کی تم تعمیر کرو اور زمین سے اس پر کوئی آڑ کھڑی کردوتویہ بھی حجر ہے۔ بیت اللہ کے حطیم کو بھی حجر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی بیت اللہ سے الگ کر دیا گیا ہے۔ گویاحطيم ‘محطومکے معنی میں ہے جیسا کہ قتيل کے معنی مقتول آتے ہیں۔ گھوڑی کو بھی حجر کہتے ہیں (اس لیے کہ وہ بھی لڑائیوں سے روکی ہوتی ہے۔ )عقل کو بھی حجر اور حجی کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی بری باتوں سے روکتی ہے، لیکن حجرالیمامہ (حجاز اور یمن کے درمیان) ایک منزل کا نام ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مسکین ابو الحسن نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حسان بن حیان ابو زکریا نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حجر (ثمود کی بستی) میں غزوئہ تبوک کے لئے جاتے ہوئے پڑاو کیا تو آپ نے صحابہ ؓ کو حکم فرمایا کہ یہاں کے کنوؤں کا پانی نہ پینا اور نہ اپنے برتنوں میں ساتھ لینا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس سے اپنا آٹا بھی گوندھ لیا ہے اور پانی اپنے برتنوں میں بھی رکھ لیا ہے۔ حضور ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ گندھا ہوا آٹاپھینک دیا جائے اور ابو ذر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے کہ جس نے آٹا اس پانی سے گوندھ لیا ہو۔ (وہ اسے پھینک دے)
حدیث حاشیہ:
سبرہ کی حدیث کو طبرانی اور ابو نعیم نے اورابو الشموس کی روایت کو طبرانی اور ابن مندہ نے اور ابو ذر کی روایت کو بزار نے وصل کیا ہے۔ چونکہ اس مقام پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا لہٰذآپ نے وہاں کے پانی کو استعمال کرنے سے منع فرمایا‘ ایسا نہ ہوکہ اس سے دل سخت ہوجائیں یا کوئی اور بیماری پیدا ہوجائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): When Allah's Apostle (ﷺ) landed at Al-Hijr during the Ghazwa of Tabuk, he ordered his companions not to drink water from its well or reserve water from it. They said, "We have already kneaded the dough with its water. and also filled our bags with its water.'' On that, the Prophet (ﷺ) ordered them to throw away the dough and pour out the water.