قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ حَدِيثِ الخَضِرِ مَعَ مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3401. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ بَلَى لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ أَيْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ أَيْ رَبِّ وَكَيْفَ لِي بِهِ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ وَرُبَّمَا قَالَ فَهُوَ ثَمَّهْ وَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَى وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ فَقَالَ هَكَذَا مِثْلُ الطَّاقِ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ قَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا قَالَ لَهُ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ مُوسَى فَرَدَّ عَلَيْهِ فَقَالَ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُكَ قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا إِلَى قَوْلِهِ إِمْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ كَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ جَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَى مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِلَّا وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ فَقَالَ لَهُ مُوسَى مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا فَكَانَتْ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا فَلَمَّا خَرَجَا مِنْ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ كَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ مَائِلًا أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَى فَوْقُ فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ مَائِلًا إِلَّا مَرَّةً قَالَ قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَى حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا قَالَ سُفْيَانُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوْ كَانَ صَبَرَ لَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ فَقَالَ مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ

مترجم:

3401.

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ س عرض کیا: نوف بکالی کہتا ہے کہ وہ موسیٰ ؑ جو حضرت خضر ؑ کے ساتھ ہیں وہ بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ ؑ نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ؑ ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس اللہ کے دشمن نے غلط کہاہے۔ ہمیں ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے خبر دی ہے: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل میں کھڑے تقریر کررہے تھے کہ ان سے دریافت کیاگیا: کون سا شخص سب سے زیادہ علم والاہے؟ انھوں نے فرمایا: میں (سب سے بڑا عالم ہوں)۔ اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوا کہ انھوں نےعلم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہیں کی۔ اور فرمایا: کیوں نہیں، میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا ملتے ہیں وہ وہاں رہتا ہے۔ وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے اس تک پہنچانے کا کون ضامن ہے؟۔ ۔ ۔ کبھی سفیان نے یوں کہا: میں ان سے کس طرح ملاقات کروں گا۔ ۔ ۔ ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک مچھلی لو اور اسے(بھون کر) اپنے توشہ دان (ٹوکری) میں رکھ لو جہاں تم سے وہ مچھلی گم ہوجائے بس وہ میرا بندہ وہیں ہوگا، چنانچہ انھوں (موسیٰ ؑ ) نے ایک مچھلی لی اور اسے ٹوکری میں رکھ لیا۔ پھر وہ اور ان کے خادم یوشع بن نون سفر پر روانہ ہوئے حتیٰ کہ ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں آرام کرنےکے لیے دونوں نے اپنے سراس پر رکھ دیے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو وہاں نیند آگئی۔ اس دوران میں مچھلی نے حرکت کی۔ توشہ دان سے باہر نکلی اور سمندر کے اندر چلی گئی۔ اس نے سمندر میں اپنا راستہ سرنگ جیسا بنالیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کا بہاؤ روک دیا اور وہ طاق کی مانند ہوگیا۔ آپ نے اشارے سے بتایا کہ ایسے طاق کی طرح ہوگیا۔ پھر وہ دونوں حضرات باقی رات چلتے رہے حتیٰ کہ جب دوسرا دن ہوا تو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا: ناشتہ لاؤ ہمیں تو اس سفر میں بڑی تھکاوٹ محسوس ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ موسیٰ ؑ نے اس وقت تک کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں کی جب تک وہ اس مقرر جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ نے انھیں حکم دیا تھا۔ خادم نے کہا: دیکھئے جہاں ہم نے چٹان کے پاس آرام کیا تھا وہاں میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے اس کے بارے میں شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنایا تھا۔ مچھلی کے لیے تو جانے کاراستہ تھا لیکن ان دونوں کے لیے تعجب کاباعث بن گیا۔ وہ دونوں حیران تھے حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم دونوں نکلے تھے، چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پہلے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان کے پاس پہنچے تو ایک بزرگ اپنا سارا بدن ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ نےانھیں سلام کہا اورانھوں نے اسکا جواب دیا، پھر کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں سے آیا؟فرمایا: میں موسیٰ ؑ ہوں۔ انھوں نے پوچھا: بنی اسرائیل کے موسیٰ ؑ؟ فرمایا: ہاں (وہی ہوں) میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم ہدایت سکھائیں جو آپ کو سکھلایا گیا ہے۔ وہ فرمانے لگے: اے موسیٰ ؑ! میں اللہ کی طرف سے ایک ایسے علم کا حامل ہوں جو اللہ نے مجھے سکھایا ہےآپ اسے نہیں جانتے اور آپ اللہ کی طرف سے ایک ایسے علم شریعت کے حامل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے میں اسے نہیں جانتا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں؟ انھوں نے فرمایا: آپ ہرگز میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے۔ واقعی آپ اس چیز پر کیسے صبر کرسکتے ہیں جس کا آپ کے علم نے احاطہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ امراً تک؟ پھر دونوں حضرات ساحل سمندر پر چل پڑے تو ان کے قریب سے ایک کشتی گزری۔ انھوں نے ان (کشتی والوں) سے بات چیت کی کہ ان کو بھی سوار کرلیں تو انھوں نے حضرت خضر ؑ کو پہچان لیا اور کرایہ لیے بغیر انھیں سوار کرلیا۔ جب یہ حضرات اس میں سوار ہوگئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا: اے موسیٰ ؑ میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم سے اتنی بھی کمی نہیں کرپایا جس قدر اس چڑیا نے اپنی چونچ سے سمندر کے پانی میں کمی کی ہے۔ اس دورن میں حضرت خضر ؑ نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کے ذریعے سے کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا۔ اچانک موسیٰ ؑ نے دیکھا کہ کلہاڑی سے کشتی کا ایک تختہ اکھڑ چکا ہے۔ موسیٰ ؑ نے ان سے کہا: آپ نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے ہم سے کرایہ لیے بغیر ہمیں کشتی میں سوار کیا۔ آپ نے دانستہ تختہ نکال کر کشتی میں شگاف کردیا تاکہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں، اس طرح آپ نے نہایت ہی ناگواری کا کام سرانجام دیا ہے۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا: میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبرنہیں کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: بھول چوک پر آپ میری گرفت نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ فرمائیں۔ یہ پہلی غلطی حضرت موسیٰ ؑ سے بھول کر ہوئی تھی، چنانچہ جب سمندری سفرختم ہوا تو ان دونوں کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت خضر ؑ نے اس کا سرپکڑا اور اپنے ہاتھ سے اسے دھڑ سے جداکردیا۔ راوی حدیث سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا جیسے ہو کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: آپ نے ایک معصوم جان کو بغیر کسی جان کے بدلے قتل کر دیا ہے۔ اس طرح آپ نے ایک ناپسندیدہ حرکت کی ہے۔ حضرت خضر ؑ نے کہا: میں نے آپ کو پہلے سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے۔ موسیٰ ؑ نے فرمایا: اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کسی چیز کے متعلق پوچھا تو آپ مجھے ساتھ نہ لے جائیں، میر ی طرف سے تمہارا عذر پورا ہوچکا ہے، چنانچہ وہ دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے۔ ان سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے میزبانی سے انکار کردیا۔ ان حضرات کو بستی میں ایک ایسی دیوار نظرآئی جوگرنے کے قریب تھی۔ حضرت خضر ؑ نے اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کردیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا کہ وہ جھک رہ تھی، انھوں نے اشارہ کیا کہ گویا وہ کسی چیز کو اوپر کی طرف پھیر رہے ہیں۔ میں نے سفیان سے مائلا کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا ہے۔ ۔ ۔ بہرحال حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: ہم ان لوگوں کے پاس آئے، انھوں نے نہ تو ہمیں کھانا کھلایا اور نہ میزبانی ہی کا حق اداکیا آپ نے مفت میں ان کی دیوار درست کردی، آپ چاہتے تو اس پر کچھ مزدوری لے سکتے تھے؟ حضرت خضر ؑ نے فرمایا: بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہوگی۔ آپ جن باتوں پر صبر نہیں کرسکے میں اب آپ کو ان کی حقیقت بتاتا ہوں۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم کرے اگر وہ تھوڑا سا صبر کرلیتے تو اللہ تعالیٰ ہم سے ان کا مزید حال بیان کرتا۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بایں طور پر اس آیت کو پڑھا ہے: ’’ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو صحیح وسالم کشتی ان سے چھین لیتا تھا۔‘‘  ’’اور وہ لڑکا کافر تھا اور اسکے والدین مومن تھے۔‘‘  سفیان نے مجھ سے کہا: میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو دفعہ سنی اور انھی سے یاد کی۔ سفیان سے پوچھا گیا: کیا عمرو بن دینار سے سننے سے پہلے آپ نے اس کو یاد کرلیا تھا۔ یا کسی اور انسان سے اسے یاد کیا ہے؟ سفیان نے کہا: میں کس سے اس حدیث کویاد کرتا؟ کیا اس حدیث کو عمرو بن دینار سے میرے سو ا کسی اور نے روایت کیا ہے؟ میں نے ہی اسے عمرو بن دینار سے دوبار یا تین بار سنا اور اس کو ان سے یاد کیا ہے۔