قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل للنبیﷺ

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ ( بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ مُجَاهِدٌ: " مُذْنِبٌ. المَشْحُونُ: المُوقَرُ. {فَلَوْلاَ أَنَّهُ كَانَ مِنَ المُسَبِّحِينَ} [الصافات: 143] الآيَةَ {فَنَبَذْنَاهُ بِالعَرَاءِ} [الصافات: 145] بِوَجْهِ الأَرْضِ {وَهُوَ سَقِيمٌ. وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ} [الصافات: 146] مِنْ غَيْرِ ذَاتِ أَصْلٍ: الدُّبَّاءِ وَنَحْوِهِ {وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ. فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ}، {وَلاَ تَكُنْ كَصَاحِبِ الحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ} [القلم: 48]: كَظِيمٌ، وَهُوَ مَغْمُومٌ "

3414. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ اللَّيْثِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَتَهُ أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا كَرِهَهُ فَقَالَ لَا وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ فَسَمِعَهُ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَامَ فَلَطَمَ وَجْهَهُ وَقَالَ تَقُولُ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَذَهَبَ إِلَيْهِ فَقَالَ أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّ لِي ذِمَّةً وَعَهْدًا فَمَا بَالُ فُلَانٍ لَطَمَ وَجْهِي فَقَالَ لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ فَذَكَرَهُ فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِالْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهِ يَوْمَ الطُّورِ أَمْ بُعِثَ قَبْلِي

مترجم:

ترجمۃ الباب:

مجاہد نے کہا ملیم گنہگار ‘ المشحونبوجھل بھری ہوئی ۔ فلو لا انہ کان من المسبحین ۔ آخر تک ۔ فنبذناہ باعرائکا معنی روئے زمین یقطین وہ درخت جو اپنی جڑ پر کھڑا نہیں رہتا جیسے کدو وغیرہ ۔ وارسلناہ الی مائۃ الف اویزیدون فامنوا فمتعناھم الی حین ۔ ( سورۃ ن میں فرمایا ) مکظوم جو کظیم کے معنی میں ہے یعنی مغموم رنجیدہ ۔

3414.

حضرت ابوہریرہ  ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ ایک یہودی نے اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے رکھا۔ اس کو اس کی قیمت تھوڑی دی جارہی تھی جس سے وہ ناخوش تھا۔ اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی! یہ جملہ ایک انصاری مرد نے سن لیا، چنانچہ وہ کھڑا ہوا اور یہودی کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور کہا کہ تو یہ بات کہتا ہے : قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی، حالانکہ نبی کریم ﷺ ہم میں موجود ہیں؟ وہ یہودی آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اے ابو القاسم! مجھے امان اور عہد مل چکا ہے۔ اس کے باوجود فلاں شخص کا کیا حال ہے کہ اس نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم نے اس کے منہ پر کیوں طمانچہ مارا؟‘‘ راوی نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ یہ سن کر غصے سے بھر گئے حتیٰ کہ آپ کے چہرہ انور پر اس کے اثرات دیکھے گئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیائے کرام ؑ کے درمیان ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ واقعہ یہ ہے کہ جب صور میں پھونکا جائے گا اورتمام زمین وآسمان والے بے ہوش ہوجائیں گے مگر جسے اللہ چاہے (وہ بے ہوش نہ ہو گا) پھر ا س میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو میں سب سے پہلے اٹھایا جاؤں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کو پکڑے ہوں گے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کو طور کے دن کی بے ہوشی کاعوض ملا ہے یا ان کو مجھ سے پہلے اٹھا دیا گیا۔‘‘