صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
27. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ طہٰ میں) فرمان فرمانا ”اے نبی تو نے موسیٰ کا قصہ سنا ہے جب انہوں نے آگ دیکھی“ آخر آیت «بالوادي المقدس طوى» تک۔
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ طہٰ میں) فرمان فرمانا ”اے نبی تو نے موسیٰ کا قصہ سنا ہے جب انہوں نے آگ دیکھی“ آخر آیت «بالوادي المقدس طوى» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Aza Wajal: "And has there come to you the story of Musa...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
انست کا معنی میں نے آگ دیکھی ( تم یہاں ٹھرو ) میں اس میں سے ایک چنگاری تمہارے پاس لے آؤں ۔ ابن عباس ؓنے کہا ‘ مقدس کا معنی مبارک ۔ طویٰ اس وادی کا نام تھا جہاں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا ۔ سیرتھایعنی پہلی حالت پر ۔ نَھی یعنی پرہیزگاری ۔ بملکنا یعنی اپنے اختیار سے ۔ ھوی یعنی بد بخت ہوا فارغا یعنی موسیٰ کے سوا اورکوئی خیال دل میں نہ رہا ۔ رداءیعنی فریاد رس یا مددگار ۔ یبطش بضم طااور یبطش بکسر طا دونوں طرح قرات ہے ۔ یاتمرون یعنی مشورہ کرتے ہیں ۔ جذوۃ یعنی لکڑی کا ایک موٹا ٹکڑا جس میں سے آگ کا شعلہ نہ نکلے ( صرف اس کے منہ پر آگ روشن ہو ) سنشد عضدکیعنی تیری مدد کریں گے ۔ جب تو کسی چیز کو زور دے گویا تو نے اس کو عضد بازو دیا ۔ ( یہ سب تفسیریں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں ) اوروں نے کہا عقدۃکا معنی یہ ہے کہ زبان سے کوئی حرف یہاں تک کہ ت یا ف بھی نہ نکل سکے ۔ ازری یعنی پیٹھ فیسحتکم یعنی تم کو ہلاک کرے ۔ مثلیٰ ، امثل کی مونث ہے ۔ یعنی تمہارا دین خراب کرنا چاہتے ہیں ۔ عرب لوگ کہتے ہیں خذ المثلی خذ الامثل یعنی اچھی روش‘ اچھا طریقہ سنبھال ۔ ثم ائتواصفا یعنی قطار باندھ کر آؤ ۔ عرب لوگ کہتے ہیں آج تو صف میں گیا یا نہیں یعنی نماز کے مقام پر ۔ فاوجس یعنی موسیٰ کا دل دھڑکنے لگا خیفۃ کی اصل خوفۃ تھی واؤ کی بوجہ کسرہ ماقبل کے ی سے بدل دیا گیافی جذوع النخل یعنی علی جذوع النخل ۔ خطبک یعنی تیراحال ۔ مساس مصدر ہے ماسہ مساسا سے ۔ لامساس یعنی تجھ کو نہ چھوئے‘ نہ تو کسی کو چھوئے ۔ لننسفنہ یعنی ہم اس کو راکھ کرکے دریا میں اڑادیں گے ۔ لا تضحی ضحی سے ہے یعنی گرمی ۔ قُسَّیہِ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا کبھی قص کا معنی کہنا اور بیان کرنا بھی آتا ہے ۔ ( سورۃ یوسف میں ) اسی سے نحن نقص علیک ہے ۔ لفظ عن جنب اور عن جنابۃ اور عن اجتناب سب کا معنی ایک ہی ہے یعنی دور سے ۔ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا علی قدر یعنی وعدے پر ۔ لا تنیا یعنی سستی نہ کرو ۔ یبسا یعنی خشک ۔ من زینۃ القوم ۔ یعنی زیور میں سے جو نبی اسرائیل نے فرعون والوں سے مانگ کر لئے تھے ۔ فقذفتھایعنی میں نے اس کو ڈال دیا ۔ القی یعنی بنایا ۔ فنسی اس کا مطلب یہ ہے کہ سامری اوراس کے لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے غلطی کی جو اس بچھڑے کو خدا نہ سمجھ کر دوسری جگہ چل دیا ۔ ان لا یرجع الیھم قولا ۔ یعنی وہ بچھڑا ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا ۔تشریح:حضرت امام بخاری نے یہاں قرآن مجید کے بہت سے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے جو مختلف آیات میں بہ سلسلہ ذکر موسیٰؑ وارد ہوئے ہیں قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے موقع بہ موقع ان الفاظ کا سمجھنا بھی ضروری ہے اور ایسے شائقین کرام کے لئے بخاری شریف کے اس مقام سے بہترین روشنی مل سکے گی۔اللہ پاک ہر مسلمان مرد وعورت کو قرآن پاک اور بخاری شریف کا مطالعہ کرنے اور عور وتدبر کے ساتھ ان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یہ بات ہر بھائی کو یاد رکھنی چاہیے کہ کہ قرآن حدیث کو سمجھنے کے لئے سر سری مطالعہ کافی نہیں ہے جو لوگ محض سر سری مطالعہ کرکے ان پاکیزہ علوم کے ماہر بننا چاہتے ہیں وہ ایک خطرناک غلطی میں مبتلاء ہیں بلکہ قرآن و حدیث کا بار بار مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے سچ ہے ( والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا) العنکبوت:69) آیت شریفہ کے مذکورہ مجاہد میں کتاب و سنت کا بنظربصیرت گہرامطالعہ کرنا بھی داخل ہے وباللہ التوفیق۔
3415.
حضر مالک بن صعصعہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس رات کے متعلق بتایا جس میں آپ کو سیر کرائی گئی تھی اور فرمایا کہ پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یہ حضرت ہارون ؑ ہیں ان کو سلام کریں۔ میں نے ان کو سلام کیا، انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: اے برادر محترم و نبی مکرم! خوش آمدید۔ ثابت اور عباد بن ابو علی نے، حضرت انس ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کرنے میں، حضرت قتادہ کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
1۔ حضرت ہارون علیہ السلام سیدنا موسیٰ ؑکے بڑے بھائی تھے۔ اس حدیث میں ان کا ذکر ہے نیز حدیث اسراء میں موسیٰ ؑ کا بھی ذکر خیر ہے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ ثابت اورعباد نے صرف ہارون ؑ کے پانچویں آسمان میں ہونے کے بارے میں متابعت کی ہے۔ تمام حدیث میں متابعت مقصود نہیں۔ حضرت ثابت کی روایت کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیاہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:411(162) لیکن اس میں مالک بن صعصعہ کا ذکر نہیں ہے۔ قاضی شریک نے بھی اپنی روایت میں حضرت ہارون ؑ کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ پانچویں آسمان میں ہیں۔ (فتح الباري:519/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3265
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3393
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3393
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3393
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
یہ مرد مومن فرعون کے خاندان سے تھا کیونکہ اگر وہ بنی اسرائیل سے ہوتا توفرعون اس کی لمبی چوڑی تقریر سننے کی زحمت نہ اٹھاتا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کے اثرات خود آل فرعون بھی نفوذ کرچکے تھے۔مکمل آیت کا ترجمہ درج ذیل ہے:"کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرناچاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے ،حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لایا ہے؟اگر وہ جھوٹا ہے تواپنے جھوٹ کا وبال خود بھگتے گا اور اگروہ سچا ہے تو جس عذاب سے تمھیں ڈراتا ہے اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تمھیں پہنچ کررہے گا۔اللہ تعالیٰ یقیناً ایسے شخص کو راہ راست پر نہیں لاتا جوحد سے گزرنے والا انتہائی جھوٹا فریبی ہو۔"(المومن 40/28)ترجمہ قرآن سے اس مرد مومن کی تقریر کا ضرور مطالعہ کیا جائے کیونکہ اس سے مرد مومن کی جراءت اور دلیری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف آیت کریمہ پر اکتفا کیا ہے تاکہ بتایا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کا اثرکہاں تک ہوا۔شاید آپ کو اس کے متعلق کوئی ایسی حدیث نہیں مل سکی جو آپ کے شرط کے مطابق ہو۔واللہ اعلم۔
انست کا معنی میں نے آگ دیکھی ( تم یہاں ٹھرو ) میں اس میں سے ایک چنگاری تمہارے پاس لے آؤں ۔ ابن عباس ؓنے کہا ‘ مقدس کا معنی مبارک ۔ طویٰ اس وادی کا نام تھا جہاں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا ۔ سیرتھایعنی پہلی حالت پر ۔ نَھی یعنی پرہیزگاری ۔ بملکنا یعنی اپنے اختیار سے ۔ ھوی یعنی بد بخت ہوا فارغا یعنی موسیٰ کے سوا اورکوئی خیال دل میں نہ رہا ۔ رداءیعنی فریاد رس یا مددگار ۔ یبطش بضم طااور یبطش بکسر طا دونوں طرح قرات ہے ۔ یاتمرون یعنی مشورہ کرتے ہیں ۔ جذوۃ یعنی لکڑی کا ایک موٹا ٹکڑا جس میں سے آگ کا شعلہ نہ نکلے ( صرف اس کے منہ پر آگ روشن ہو ) سنشد عضدکیعنی تیری مدد کریں گے ۔ جب تو کسی چیز کو زور دے گویا تو نے اس کو عضد بازو دیا ۔ ( یہ سب تفسیریں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں ) اوروں نے کہا عقدۃکا معنی یہ ہے کہ زبان سے کوئی حرف یہاں تک کہ ت یا ف بھی نہ نکل سکے ۔ ازری یعنی پیٹھ فیسحتکم یعنی تم کو ہلاک کرے ۔ مثلیٰ ، امثل کی مونث ہے ۔ یعنی تمہارا دین خراب کرنا چاہتے ہیں ۔ عرب لوگ کہتے ہیں خذ المثلی خذ الامثل یعنی اچھی روش‘ اچھا طریقہ سنبھال ۔ ثم ائتواصفا یعنی قطار باندھ کر آؤ ۔ عرب لوگ کہتے ہیں آج تو صف میں گیا یا نہیں یعنی نماز کے مقام پر ۔ فاوجس یعنی موسیٰ کا دل دھڑکنے لگا خیفۃ کی اصل خوفۃ تھی واؤ کی بوجہ کسرہ ماقبل کے ی سے بدل دیا گیافی جذوع النخل یعنی علی جذوع النخل ۔ خطبک یعنی تیراحال ۔ مساس مصدر ہے ماسہ مساسا سے ۔ لامساس یعنی تجھ کو نہ چھوئے‘ نہ تو کسی کو چھوئے ۔ لننسفنہ یعنی ہم اس کو راکھ کرکے دریا میں اڑادیں گے ۔ لا تضحی ضحی سے ہے یعنی گرمی ۔ قُسَّیہِ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا کبھی قص کا معنی کہنا اور بیان کرنا بھی آتا ہے ۔ ( سورۃ یوسف میں ) اسی سے نحن نقص علیک ہے ۔ لفظ عن جنب اور عن جنابۃ اور عن اجتناب سب کا معنی ایک ہی ہے یعنی دور سے ۔ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا علی قدر یعنی وعدے پر ۔ لا تنیا یعنی سستی نہ کرو ۔ یبسا یعنی خشک ۔ من زینۃ القوم ۔ یعنی زیور میں سے جو نبی اسرائیل نے فرعون والوں سے مانگ کر لئے تھے ۔ فقذفتھایعنی میں نے اس کو ڈال دیا ۔ القی یعنی بنایا ۔ فنسی اس کا مطلب یہ ہے کہ سامری اوراس کے لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے غلطی کی جو اس بچھڑے کو خدا نہ سمجھ کر دوسری جگہ چل دیا ۔ ان لا یرجع الیھم قولا ۔ یعنی وہ بچھڑا ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا ۔تشریح:حضرت امام بخاری نے یہاں قرآن مجید کے بہت سے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے جو مختلف آیات میں بہ سلسلہ ذکر موسیٰؑ وارد ہوئے ہیں قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے موقع بہ موقع ان الفاظ کا سمجھنا بھی ضروری ہے اور ایسے شائقین کرام کے لئے بخاری شریف کے اس مقام سے بہترین روشنی مل سکے گی۔اللہ پاک ہر مسلمان مرد وعورت کو قرآن پاک اور بخاری شریف کا مطالعہ کرنے اور عور وتدبر کے ساتھ ان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یہ بات ہر بھائی کو یاد رکھنی چاہیے کہ کہ قرآن حدیث کو سمجھنے کے لئے سر سری مطالعہ کافی نہیں ہے جو لوگ محض سر سری مطالعہ کرکے ان پاکیزہ علوم کے ماہر بننا چاہتے ہیں وہ ایک خطرناک غلطی میں مبتلاء ہیں بلکہ قرآن و حدیث کا بار بار مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے سچ ہے ( والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا) العنکبوت:69) آیت شریفہ کے مذکورہ مجاہد میں کتاب و سنت کا بنظربصیرت گہرامطالعہ کرنا بھی داخل ہے وباللہ التوفیق۔
حدیث ترجمہ:
حضر مالک بن صعصعہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس رات کے متعلق بتایا جس میں آپ کو سیر کرائی گئی تھی اور فرمایا کہ پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یہ حضرت ہارون ؑ ہیں ان کو سلام کریں۔ میں نے ان کو سلام کیا، انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: اے برادر محترم و نبی مکرم! خوش آمدید۔ ثابت اور عباد بن ابو علی نے، حضرت انس ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کرنے میں، حضرت قتادہ کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ہارون علیہ السلام سیدنا موسیٰ ؑکے بڑے بھائی تھے۔ اس حدیث میں ان کا ذکر ہے نیز حدیث اسراء میں موسیٰ ؑ کا بھی ذکر خیر ہے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ ثابت اورعباد نے صرف ہارون ؑ کے پانچویں آسمان میں ہونے کے بارے میں متابعت کی ہے۔ تمام حدیث میں متابعت مقصود نہیں۔ حضرت ثابت کی روایت کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیاہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:411(162) لیکن اس میں مالک بن صعصعہ کا ذکر نہیں ہے۔ قاضی شریک نے بھی اپنی روایت میں حضرت ہارون ؑ کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ پانچویں آسمان میں ہیں۔ (فتح الباري:519/6)
ترجمۃ الباب:
آنَسْتُ کے معنی ہیں: میں نے دیکھی ہے۔ شاید میں وہاں سے تمہارے لیے کوئی انگارہ لا سکوں۔ حضرت ابن عباس ؓنےکہا الْمُقَدَّسِ کے معنی بابرکت اور طُوًى ایک وادی کا نام ہے سِيرَتَهَا کے معنی ہیں: اس کی حالت النُّهَىٰ عقل۔ بِمَلْكِنَا اپنے اختیار سے هَوَىٰ وہ بدبخت ہوا۔ فَارِغًا ۖ موسیٰؑ کے علاوہ اور کوئی خیال دل میں نہ رہا رْدًا معاون بناتا کہ وہ میری تصدیق کرے۔ اس کی تفسیر فریاد رس اور مددگار سے بھی کی جاتی ہے۔ يَبْطِشَ حملہ کرے۔ اسے طاپر پیش سے بھی پڑھا جاتا ہے۔ يَأْتَمِرُونَ مشورہ کررہے ہیں۔ جزوةلکڑی کا سخت کوئلہ جس میں روشنی کی تیزی نہ ہو۔ سَنَشُدُّ عنقریب ہم تیری مدد کریں گے۔ جب بھی تو کسی چیزکو مضبوط کرے، گویا تونے اس کےلیے بازو بنادیا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ جو کوئی حرف نہ بول سکےاور تاتا یافافا کرے، یعنی زبان سے لفظ"ت"اور"ف"بھی ادا نہ ہوسکے تو یہ زبان کی گرہ ہےمیری کمر۔ آزري تم کو وہ ہلاک کرے گا۔ فَيُسْحِتَكُم امثل کی تانیث ہے۔ تمہارے بہترین دین کو ختم کردے۔ کہاجاتا ہے۔ خذ المثلي‘خذ الامثليیعنی بہترین چیز کو لو ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا کہا جاتا ہے: کیا آج تم اپنی صف پر آئے؟یعنی صف سے مراد وہ مصلیٰ ہے جہاں نماز پڑھی جائے۔ (جادوگروں کو کہا گیا کہ تم اکھٹے ہوکر آؤ۔ )فَأَوْجَسَ دل میں خوف محسوس کیا۔ خِيفَةً کے معنی ہیں: خوف۔ واؤ خاء کے کسرےکی وجہ سے یاسے بدل گئی۔ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ اس میں حرف فی، علی کے معنی میں ہے۔ خَطْبُكَ تیرا حال مِسَاسَ ۖ ماسه سے مصدر ہے۔ اسے ہاتھ نہ لگاؤ۔ لَنَنسِفَنَّهُ ہم اسے ریزہ ریزہ کرکے(دریا میں) بہادیں گےالضحاءسے مراد گرمی ہے، یعنی گرمی کے وقت لوگ اکھٹے ہوں۔ قُصِّيهِ اس کے نشان کے پیچھے چلو۔ یہ لفظ بیان کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسے نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ ہم تم پر بیان کرتے ہیں۔ عَن جُنُبٍ دور سے، عن جنابةاورعن اجتناب کے معنی بھی یہی ہیں۔امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: عَلَىٰ قَدَرٍ وعدے کی جگہ یا وعدے کا وقت لَا تَنِيَا کمزور نہ پڑو۔ مَكَانًا سُوًى دونوں فریقوں کے درمیان مسافت يَبَسًا خشک مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ زیورات جو قوم فرعون سے مانگ کر لائے تھے فَقَذَفْنَاهَا میں نے ان کو ڈال دیا۔ أَلْقَى بنایا۔فَنَسِيَ وہ کہتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے چوک گئے۔ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا بچھڑے کے بارے میں ہے (کہ وہ انھیں کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔ )۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا‘ ان سے انس بن مالک ؓ نے اور ان سے حضرت مالک بن صعصعہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے اس رات کے متعلق بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا کہ جب آپ پانچویں آسمان پر تشریف لے گئے تو وہاں ہارون ؑ سے ملے۔ جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ ہارون ؑ ہیں‘ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا‘ خوش آمدید‘ صالح بھائی اور صالح نبی۔ اس حدیث کو قتادہ کے ساتھ ثابت بنانی اور عباد بن ابی علی نے بھی انس ؓ سے‘ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Malik bin Sasaa (RA): Allah's Apostle (ﷺ) talked to his companions about his Night Journey to the Heavens. When he reached the fifth Heaven, he met Aaron. ( Gabriel (ؑ) said to the Prophet), "This is Aaron." The Prophet (ﷺ) said, " Gabriel (ؑ) greeted and so did I, and he returned the greeting saying, 'Welcome, O Pious Brother and Pious Prophet."