Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The story of Al-Khidr with Musa (Moses) alayhis-salam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3424.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’خضر ؑ کا نام اس لیے خضر رکھاگیا کہ وہ ایک مرتبہ خشک زمین پر بیٹھے، جب وہاں سے اٹھے تو وہ سرسبز ہوکر لہلہانے لگی۔‘‘ علی بن خشرم نے حضرت سفیان کے حوالے سے طویل حدیث بیان کی ہے۔
تشریح:
1۔ حضرت خضر کے بیٹھنے سے اس زمین کا سرسبز ہونا، ان کی کرامت تھی۔ اولیاء کی کرامت برحق ہے بشرط یہ کہ وہ صحیح طور پر ثابت ہو، من گھڑت اور خود ساختہ نہ ہو۔ واضح رہے کہ اولیاء کی کرامات محض اللہ کا عطیہ ہوتی ہیں اور اولیاء ہروقت اللہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اولیاء اللہ کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے:﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾’’جو ایمان لاتے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔‘‘ (یونس:63/10) چونکہ ایمان اورتقویٰ کے کئی درجات ہیں، اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے بھی کئی درجے ہیں۔ عرف عام میں اولیاء اللہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ایمان وتقویٰ کے بلند درجات پر فائز ہوں۔ ہمارے اسلاف میں کچھ کی طبیعتیں زہد وتقویٰ اور عبادت کی طرف مائل تھی انھیں زہاد اور صالحین کا نام دیاجاتا تھا۔ 2۔ تیسری صدی میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفے کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا۔ اس کے بعد ولایت کا مفہوم بھی یکسر بدل گیا بلکہ یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہوگیا جو ریاضت اور چلہ کشی کرتے اور باقاعدہ کسی شیخ کی بیعت میں منسلک ہوتے۔ ان سے کرامات کا ظہور لازمی قراردیا گیا۔ پھرجب غیر اسلامی عقائد، وحدت الوجود، ودحدت الشہود اورحلول ہماری تہذیب میں گھس آئے تو ولایت کا معیار قرارپایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجے کا ولی ہوگا۔ بعض نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہمارا براہ راست اللہ سے رابطہ ہے اور ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ملنے والی شریعت کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ایک باطنی نظام کی داغ بیل رکھ دی گئی۔ پیری مریدی کا دھندا شروع ہوا۔ اس کے بعد اپن دین کی طریقت کومغز اور شریعت کو ہڈیان قرار دے کر ایک طرف پھینک دیا گیا۔ شرعی اعتبار سے یہ تفریق بے بنیاد اور خودساختہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3273
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3402
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3402
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3402
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’خضر ؑ کا نام اس لیے خضر رکھاگیا کہ وہ ایک مرتبہ خشک زمین پر بیٹھے، جب وہاں سے اٹھے تو وہ سرسبز ہوکر لہلہانے لگی۔‘‘ علی بن خشرم نے حضرت سفیان کے حوالے سے طویل حدیث بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت خضر کے بیٹھنے سے اس زمین کا سرسبز ہونا، ان کی کرامت تھی۔ اولیاء کی کرامت برحق ہے بشرط یہ کہ وہ صحیح طور پر ثابت ہو، من گھڑت اور خود ساختہ نہ ہو۔ واضح رہے کہ اولیاء کی کرامات محض اللہ کا عطیہ ہوتی ہیں اور اولیاء ہروقت اللہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اولیاء اللہ کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے:﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾’’جو ایمان لاتے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔‘‘ (یونس:63/10) چونکہ ایمان اورتقویٰ کے کئی درجات ہیں، اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے بھی کئی درجے ہیں۔ عرف عام میں اولیاء اللہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ایمان وتقویٰ کے بلند درجات پر فائز ہوں۔ ہمارے اسلاف میں کچھ کی طبیعتیں زہد وتقویٰ اور عبادت کی طرف مائل تھی انھیں زہاد اور صالحین کا نام دیاجاتا تھا۔ 2۔ تیسری صدی میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفے کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا۔ اس کے بعد ولایت کا مفہوم بھی یکسر بدل گیا بلکہ یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہوگیا جو ریاضت اور چلہ کشی کرتے اور باقاعدہ کسی شیخ کی بیعت میں منسلک ہوتے۔ ان سے کرامات کا ظہور لازمی قراردیا گیا۔ پھرجب غیر اسلامی عقائد، وحدت الوجود، ودحدت الشہود اورحلول ہماری تہذیب میں گھس آئے تو ولایت کا معیار قرارپایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجے کا ولی ہوگا۔ بعض نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہمارا براہ راست اللہ سے رابطہ ہے اور ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ملنے والی شریعت کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ایک باطنی نظام کی داغ بیل رکھ دی گئی۔ پیری مریدی کا دھندا شروع ہوا۔ اس کے بعد اپن دین کی طریقت کومغز اور شریعت کو ہڈیان قرار دے کر ایک طرف پھینک دیا گیا۔ شرعی اعتبار سے یہ تفریق بے بنیاد اور خودساختہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سعید اصبہانی نےبیان کیا، ہم کوعبداللہ بن مبارک نےخبر دی، انہیں معمر نے، انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں حضرت ابوہریرہ نے کہ نبیﷺ نے فرمایا، خضر کا یہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین (جہاں سبزی کانام بھی نہ تھا) پر بیٹھے۔ لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اٹھے تووہ جگہ سرسبز ہوکر لہلہانے لگی۔
حدیث حاشیہ:
کہتےہیں حضرت خضر کانام بلیا بن ملکان بن قانع بن عائبہ بن شالخ بن ارفحشد بم سام بن نوع ہے۔ وہ حضرت ابراھیم سےپہلے پیدا ہوچکے تھے۔ ابن عباس ؓ سےمنقول ہےکہ وہ حضرت آدم کےصلبی بیٹے تھے اوربھی مختلف روایات ہیں۔ بقول قسطلانی اکثر علماء وصوفیا کہتےہیں کہ وہ زندہ ہیں مگر حضرت امام بخاری اور محقین امت اہل حدیث نےکہا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔ ان کے بیٹھے سے زمین کا سر سبز ہونا ان کی کرامت تھی۔ اولیاء اللہ اس کے برحق ہے بشرطیکہ صحیح طور پر ثابت ہو۔ من گھڑت نہ ہو مگر یہ کرامت محض اللہ تعالیب کاعطیہ ہوتی ہے۔ اولیاءاللہ ہر وقت اس کے محتاج ہیں۔ فروۃ بیضاء کی تفسیر میں امام ابن حجر لکھتے ہیں۔ الفروة قيل هي جلدة وجه الأرض جلس عليها فانبتت وصارت حضرا و جاز في الخضرفتح الخاء و كسرها واختلف في نبوته قال الثعلبي كان في زمن إبراهيم الخليل وقال الأكثرون أنه حي موجود اليوم –إلى آخره كذا في الكرماني قال العيني والمطابقة من حديث أن الخضراء مذكور فيه كذا في الفتح- روایت میں جس شخص نوفل بکالی کا ذکر ہے اہل دمشق سےایک فاضل تھا اوریہ بھی مروی ہےکہ یہ کعب احبار کابھتیجا تھا، اس کا خیال تھاکہ صاحب خضر موسی بن میشا ہیں جو توراۃ کی بنا پررسول ہیں مگر صحیح بات یہی ہےکہ یہ صاحب خضر موسیٰ بن عمران تھے۔ مجمع البحرین جس کا ذکر ہے وہ جگہ ہے جہاں بحر فارس اور بحر روم ملتےہیں۔ مچھلی جوناشتہ کےلیے ساتھ بھون کر رکھی گئی تھی جب حضرت موسیٰ اسے ہمراہ لےکر صخرہ کےپاس پہنچے تووہاں آب حیات کاچشمہ تھا جس سے وہ مچھلی زندہ ہوکر دریامیں کود گئی۔ حضرت حضر کےکاموں پر حضرت موسیٰ کےاعتراضات ظاہری حالات کی بنا پرتھے۔ حضرت حضر نے جب حقائق کا اظہار کیا توحضرت موسیٰ کےلیے ک بجز تسلیم کے کوئی چارہ نہ تھا۔ مزید تفصیلات کتب تفاسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Al-Khadir was named so because he sat over a barren white land, it turned green with plantation after (his sitting over it."