تشریح:
1۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کی طرف سے روح ہیں،اس سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کا جز اور اس کاحصہ ہیں جیسا کہ کچھ عیسائیوں کا عقیدہ ہے بلکہ اس مقام پر من ابتدا کے معنی دیتا ہے۔ اس کے حصہ ہونے کے معنی نہیں دیتا،یعنی یہ روح اللہ کی طرف سے تھی اگرچہ پھونک تو حضرت جبریل ؑ نے ماری تھی لیکن یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب کچھ اسی کی طرف سے ہے،اس نے تمہارے لیے کام پر لگا رکھاہے۔‘‘ (الجاثیة:13/45) اس کے معنی یہ نہیں کہ تمام چیزیں اللہ کا جز ہیں،اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑکے متعلق روح منه کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ کا جز ہیں بلکہ وہ روح ،اللہ کی طرف سے ہے۔دراصل عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی تردید مقصود ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر عقل اور نقل سے کوئی صحیح اور معقول دلیل پیش نہیں کی جاسکتی لیکن افسوس کہ عیسائی دنیا اسی باطل عقیدے پر جمی ہوئی ہے۔ 2۔اس حدیث کے مطابق یہ عقیدہ رکھنے والا شخص مختار ہے جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ لیکن وہ دیکھے گا کہ جو دروازہ اس کے لیے مختص ہے، وہ اس کے حق میں دوسروں سے افضل ہے تو وہ اسے پسند کرے گا اور اپنے اختیار سے جنت میں داخل ہوگا۔ اس میں نہ تو وہ مجبور ہوگا اور نہ اس کو کوئی داخل ہونے سے منع ہی کرے گا۔